معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 1036
عَنِ بْنُ سَعْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ أَنْ يُقْطَعَ عِضَاهُهَا ، أَوْ يُقْتَلَ صَيْدُهَا » ، وَقَالَ : « الْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ، لَا يَدَعُهَا أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا إِلَّا أَبْدَلَ اللهُ فِيهَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ ، وَلَا يَثْبُتُ أَحَدٌ عَلَى لَأْوَائِهَا وَجَهْدِهَا إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَفِيعًا ، أَوْ شَهِيدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ » (رواه مسلم)
مدینہ طیبہ کی عظمت اور محبوبیت
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں حرم قرار دیتا ہوں مدینہ کے دونوں طرف کے سنکتانی کناروں کے درمیان کے علاقہ کو (یعنی اس کےواجب الاحترام ہونے کا اعلان کرتا ہوں، اور حکم دیتا ہوں کہ) اس کے خاردار درخت کاٹے نہ جائیں اور اس میں رہنے والے جانوروں کو شکار نہ کیا جائے .... اسی سلسلہ میں آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: کہ (بعض اشیاء کی کمی اور بعض تکلیفوں کے باوجود) مدینہ لوگوں کے لیے بہتر ہے، اگر وہ اس کی خیر و برکت کو جانتے (تو کسی تنگی اور پریشانی کی وجہ سے اور کسی لالچ میں اس کو نہ چھوڑتے) جو کوئی اپنی پسند اور خواہش سے اس کو چھوڑ کے جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اپنے کسی ایسے بندے کو بھیج دے گا جو اس سے بہتر اور افضل ہو گا (یعنی کسی کے اس طرح چلے جانے سے مدینہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی بلکہ وہ جانے والا ہی اس کی برکات سے محروم ہو کر جائے گا) اور جو بندہ مدینہ کی تکلیفوں، تنگیوں اور مشقتوں پر صبر کر کے وہاں پڑا رہے گا میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا یا اس کے حق میں شہادت دوں گا۔ (صحیح مسلم)

تشریح
سفارش اس کی کہ اس کے قصور اور اس کی خطائیں معاف کر دی جائیں اور اس کو بخش دیا جائے۔ اور شہادت اس کے ایمان اور اعمال صالحہ کی اور اس بات کی کہ یہ بندہ تنگیوں تکلیفوں پر صبر کئے ہوئے مدینہ ہی میں پڑا رہا۔
Top