معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 1018
عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يَرْمِي الجَمْرَةَ الدُّنْيَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ ، يُكَبِّرُ عَلَى إِثْرِ كُلِّ حَصَاةٍ ، ثُمَّ يَتَقَدَّمُ حَتَّى يُسْهِلَ ، فَيَقُومَ مُسْتَقْبِلَ القِبْلَةِ ، طَوِيلًا ، وَيَدْعُو وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ ، ثُمَّ يَرْمِي الوُسْطَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ ، يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَمَى بِحِصَاةٍ ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِذَاتِ الشِّمَالِ فََيُسْهَلُ ، وَيَقُومُ مُسْتَقْبِلَ القِبْلَةِ ، ثُمَّ يَدْعُو وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ ، وَيَقُومُ طَوِيلًا ، ثُمَّ يَرْمِي جَمْرَةَ ذَاتِ العَقَبَةِ مِنْ بَطْنِ الوَادِي بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ ، يُكَبِّرُ عِنْدَ كُلِّ حِصَاةٍ ، وَلاَ يَقِفُ عِنْدَهَا ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ ، فَيَقُولُ « هَكَذَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ » (رواه البخارى)
رمی جمرات
سالم بن عبداللہ اپنے والد ماجد حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ رمی جمرات کے بارے میں ان کا معمول اور دستور تھا کہ وہ پہلے جمرہ پر سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے، اس کے بعد اگے نشیب میں اتر کر قبلہ رو کھڑے ہوتے اور ہاتھ اٹھا کے دیر تک دعا کرتے، پھر درمیان والے جمرہ پر بھی اسی طرح سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری پر تکبیر کہتے، پھر بائیں جانب نشیب میں اتر کر قبلہ ر کھڑے ہوتے اور دیر تک کھڑے رہتے اور ہاتھ اٹھا کے دعا کرتے، پھر آخری جمرہ (جمرۃ العقبہ) پر بطن وادی سے سات کنکریاں مارتے اور کے ساتھ اللہ اکبر کہتے اور اس جمرہ کے پاس کھڑے نہ ہوتے بلکہ واپس ہو جاتے، اور بتاتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (صحیح بخاری)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ پہلے اور دوسرے جمروں کی رمی کے بعد قریب میں قبلہ رو کھڑے ہو کر دیر تک دعا کرتے تھے اور آخری جمرہ کی رمی کے بعد بغیر کھڑے ہوئے اور دعاکئے واپس ہو جاتے تھے، یہی سنت ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں اس سنت پر عمل کرنے والے بلکہ اس کے جاننے والے بھی بہت کم ہیں۔
Top