معارف الحدیث - کتاب الحج - حدیث نمبر 1011
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَُرَ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِىَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ : الحَجُّ عَرَفَةٌ ، وَمَنْ أَدْرَكَ عَرَفَةَ قَبْلَ طُلُوْعِ الفَجْرِ فَقَدْ أَدْرَكَ الحَجَّ ..... أَيَّامُ مِنًى ثَلاَثَةٌ {فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ....}. (رواه الترمذى وابوداؤد والنسائى وابن ماجه والدارمى)
وقوف عرفہ کی اہمیت اور فضیلت
حضرت عبدالرحمن بن یعمر دئلی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے: حج (کا خاص الخاص رکن جس پر حج کا دار و مدار ہے) وقووف عرفہ ہے، جو حاجی مزدلفہ والی رات میں (یعنی ۹ اور ۱۰ ذی الحجہ کی درمیانی شب میں) بھی صبح صادق سے پہلے عرفات میں پہنچ جائے تو اس نے حج پا لیا اور اس کا حج ہو گیا ...... (یوم النحر یعنی ۱۰ ذی الحجہ کے بعد) منیٰ میں قیام کے عین دن میں (جن میں تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے ۱۱، ۱۲، ۱۳ ذی الحجہ) اگر کوئی آدمی صرف دو دن میں یعنی (۱۱، ۱۲ کو رمی کر کے) جلدی منیٰ سے چل دے تو اس میں بھی کوئی گناہ نہیں ہے، اور اگر کوئی ایک دن مزید ٹھہر کے (۱۳ ذی الحجہ کی رمی کر کے) وہاں سے جائے تو اس پر بھی کوئی گناہ اور الزام نہیں ہے (دونوں باتیں جائز ہیں)۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، سنن دارمی)

تشریح
حج کا سب سے اہم رکن نویں ذی الحجہ کو میدان عرفات کا وقوف ہے، اگر یہ ایک لحظہ کے لیے بھی نصیب ہو گیا تو حج نصیب ہو گیا، اور اگر کسی وجہ سے حاجی ۹ ذی الحجہ کے دن، اور اس کے بعد والی رات کے کسی حصے میں بھی عرفات میں نہ پہنچ سکا تو اس کا حج فوت ہو گیا۔ حج کے دوسرے ارکان و مناسک طواف، سعی، رمی، جمرات وغیرہ اگر کسی وجہ سے فوت ہو جائیں تو ان کا کوئی نہ کوئی کفارہ اور تدارک ہے، لیکن اگر وقوف عرفہ فوت ہو جائے تو اس کا کوئی تدارک نہیں ہے۔ چونکہ وقوف عرفات پر حج کا دار و مدار ہے اس لیے اس میں اتنی وسعت رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی آدمی نویں ذی الحجہ کے دن میں عرفات نہ پہنچ سکے (جو وقوف کا اصلی وقت ہے) وہ اگر اگلی رات کے کسی حصے میں بھی وہاں پہنچ جائے تو اس کا وقوف ادا ہو جائے گا اور وہ حج سے محروم نہ سمجھا جائے گا۔ یوم العرفہ کے بعد ۱۰ ذی الحجہ کو یوم النحر ہے جس میں ایک جمرہ کی رمی اور قربانی اور حلق وغیرہ کے بعد احرام کی پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں اور اسی دن مکہ جا کر طواف زیارت کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد منیٰ میں زیادہ سے زیادہ تین دن اور کم سے کم دو دن ٹھہر کر تینوں جمروں پر کنکریاں مارنا مناسک میں سے ہے ....... پس اگر کوئی شخص صرف دو دن ۱۱، ۱۲ ذی الحجہ کو رمی جمرات کر کے منیٰ سے چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، اور اگر کوئی ۱۳ ذی الھجہ کو بھی ٹھہرے، اور رمی کر لے، تو یہ بھی جائز ہے۔
Top