معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 967
عَنْ أُمِّ هَانِئٍ ، قَالَتْ : لَمَّا كَانَ يَوْمُ الْفَتْحِ فَتْحِ مَكَّةَ ، جَاءَتْ فَاطِمَةُ ، فَجَلَسَتْ عَنْ يَسَارِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمُّ هَانِئٍ عَنْ يَمِينِهِ ، قَالَتْ : فَجَاءَتِ الْوَلِيدَةُ بِإِنَاءٍ فِيهِ شَرَابٌ ، فَنَاوَلَتْهُ فَشَرِبَ مِنْهُ ، ثُمَّ نَاوَلَهُ أُمَّ هَانِئٍ ، فَشَرِبَتْ مِنْهُ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، لَقَدْ أَفْطَرْتُ ، وَكُنْتُ صَائِمَةً ، فَقَالَ لَهَا : « أَكُنْتِ تَقْضِينَ شَيْئًا؟ » ، قَالَتْ : لَا ، قَالَ : « فَلَا يَضُرُّكِ إِنْ كَانَ تَطَوُّعًا » (رواه ابوداؤد والترمذى والدارمى)
نفلی روزہ توڑا بھی جا سکتا ہے
حضرت ام ہانی بنت ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے بعد (جب کہ رسول اللہ ﷺ مکہ معظمہ میں تشریف فرما تھے) حضرت فاطمہ زہرا ؓ آئیں اور رسول اللہ ﷺ کے بائیں جانب بیٹھ گئیں اور ام ہانی ؓ آپ ﷺ کے داہنی جانب تھیں کہ ایک بچی آپ ﷺ کے پینے کے لیے کوئی مشروب لے کر آئی اور آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ ﷺ نے اس میں سے کچھ پی لیا اور پھر ام ہانی ؓ کی طرف بڑھا دیا۔ انہوں نے بھی اس میں سے پی لیا اور پھر حضور ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں روزے سے تھی اور میں نے یہ پی کر روزہ توڑ دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس روزے کے ذریعے کسی فرض یا واجب کو ادا کرنا چاہتی تھیں؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں (بلکہ صرف نفلی روزہ تھا)۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر نفلی تھا، تو پھر کوئی مضائقہ نہیں۔ (سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن دارمی)

تشریح
اس حدیث میں تصریح ہے کہ نفلی روزہ توڑ دینے سے کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ اسی حدیث کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں: الصَّائِمُ الْمُتَطَوِّعُ أَمِيرُ نَفْسِهِ، إِنْ شَاءَ صَامَ، وَإِنْ شَاءَ أَفْطَرَ (یعنی نفل روزہ رکھنے والے کو اختیار ہے کہ چاہے تو روزہ پورا کرے اور کسی وجہ سے توڑنا چاہے تو توڑ دے)۔ مندرجہ بالا دونوں حدیثوں سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ نفلی روزہ توڑ دینے کی صورت میں اس کی جگہ دوسرا روزہ رکھنا پڑے گا یا نہیں .... آگے درج ہونے والی حدیث میں اس کی قضا رکھنے کا بھی حکم ہے۔
Top