معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 942
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ : لاَ يُفْطِرُ ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ : لاَ يَصُومُ ، وَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ قَطُّ إِلَّا رَمَضَانَ ، وَمَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ مِنْهُ صِيَامًا فِي شَعْبَانَ " (رواه البخارى ومسلم)
ماہ شعبان میں نفلی روزوں کی کثرت
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا دستور (نفلی روزوں کے بارے میں) یہ تھا کہ آپ (کبھی کبھی) مسلسل بلاناغہ روزے رکھنے شروع کرتے، یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ اب ناغہ ہی نہیں کریں گے، اور (کبھی اس کے برعکس ایسا ہوتا کہ) آپ روزے نہ رکھتے اور مسلسل بغیر روزے کے دن گزارتے، یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ اب آپ بلا روزے کے ہی رہا کریں گے .... اور فرماتی ہیں حضرت صدیقہ ؓ کہ .... میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے علاوہ کسی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں، اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں (اس حدیث کی بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آپ شعبان کے (قریباً) پورے مہینے ہی کے روزے رکھتے تھے)۔

تشریح
حدیث کے پہلے جز کا مطلب تو یہ ہے کہ نفلی روزوں کے بارے میں آپ ﷺ کا کوئی لگاؤ بندھا دستور و معمول نہیں تھا، بلکہ کبھی آپ مسلسل بلا ناغہ روزے رکھتے تھے، اور کبھی مسلسل بغیر روزے کے رہتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ امت کے لیے؟ آپ کی پیروی میں مشکل اور تنگی نہ ہو بلکہ وسعت کا راستہ کھلا رہے، اور ہر شخص اپنے حالات اور اپنی ہمت کے مطابق آپ کے کسی رویہ کی پیروی کر سکے۔ دوسرے جز کا مطلب یہ ہے کہ آپ پورے اہتمام سے پورے مہینے کے روزے صرف رمضان کے رکھتے تھے (جو اللہ نے فرض کئے ہیں) ہاں شعبان میں دوسرے مہینوں کی بہ نسبت زیادہ روزے رکھتے ہوں .... بلکہ اسی حدیث کی ایک روایت میں ہے کہ قریب قریب پورے مہینے شعبان کے روزے رکھتے تھے اور بہت کم دن ناغہ فرماتے تھے۔ ماہ شعبان میں رسول اللہ ﷺ کے زیادہ نفلی روزے رکھنے کے کئی سبب اور کئی حکمتیں بیان کی گئی ہیں جن میں سے بعض وہ ہیں جن کی طرف بعض حدیثوں میں بھی اشارہ ملتا ہے۔ چنانچہ حضرت اسامہ بن زید ؓ کی ایک حدیث میں ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اسی مہینے میں بارگاہ الہی میں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے، میں پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال کی پیشی ہو تو میں روزے سے ہوں۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے ایک حدیث مروی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ماہ شعبان میں بہت زیادہ روزے اس لیے رکھتے تھے کہ پورے سال میں مرنے والوں کی فہرست اسی مہینے میں ملک الموت کے حوالہ کی جاتی ہے، آپ چاہتے تھے کہ جب آپ کی وفات کے بارے میں ملک الموت کو احکام دئیے جا رہے ہوں تو اس وقت آپ روزے سے ہوں۔ اس کے علاوہ رمضان کا قرب اور اس کے خاص انوار و برکات سے مزید مناسبت پیدا کرنے کا شوق اور داعیہ بھی غالباً اس کا سبب اور محرک ہو گا، اور شعبان کے ان روزوں کو رمضان کے روزوں سے وہی نسبت ہو گی جو فرض نمازوں سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل کو فرضوں سے ہوتی ہے، اور اسی طرح رمضان کے بعد شوال میں چھ نفلی روزوں کی تعلیم و ترغیب جو آگے درج ہونے والی حدیث میں آ رہی ہے، اس کو رمجان کے روزوں سے وہی نسبت ہو گی، جو فرض نمازوں کے بعد والی سنتوں اور نفلوں کو فرضوں سے ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔
Top