معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 927
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : إِنَّ حَمْزَةَ بْنَ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيُّ قال لِلنَّبِىِّ : أَصُومُ فِي السَّفَرِ؟ وَكَانَ كَثِيرَ الصِّيَامِ .... فَقَالَ : « إِنْ شِئْتَ فَصُمْ ، وَإِنْ شِئْتَ فَأَفْطِرْ » (رواه البخارى ومسلم)
مسافرت میں روزہ
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ حمزہ بن عمر اسلمی نے جو بہت روزے رکھا کرتے تھے .... رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ میں سفر میں روزے رکھ لیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ چاہو تو رکھو اور چاہو نہ رکھو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
قرآن مجید سورہ بقرہ میں جس جگہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کا اعلان کیا گیا ہے وہیں مریضوں اور مسافروں کو رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے، اور حکم دیا گیا ہے کہ وہ سفر اور بیماری کے بعد اپنے روزے پورے کریں اور وہیں بتا دیا گیا ہے کہ یہ اجازت اور رخصت بندوں کی سہولت اور آسانی کے لیے دی گئی ہے۔ ارشاد ہے: فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ، يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ اليُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ العُسْرَ. (البقره، 158: 2) اور جو تم میں سے رمضان کا مہینہ پائے تو وہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے، اور جو مریض ہو یا سفر میں ہو تو اس کے ذمہ دوسرے دنوں میں رمضان کے دنوں کی گنتی پوری کرنی ہے۔ اللہ کو تمہارے لیے سہولت اور آسانی منظور ہے، وہ تمہارے واسطے دشواری نہیں چاہتا۔ اس آیت سے خود معلوم ہو گیا کہ یہ رخصت بندوں کی سہولت اور آسانی کے لیے اور تنگی اور دشواری سے ان کو بچانے کے لیے دی گئی ہے، اس لیے اگر کوئی شخص سفر میں ہونے کے باوجود روزے میں اپنے لیے کوئی خاص تکلیف اور دشواری محسوس نہ کرے تو وہ روزہ رکھ سکتا ہے اور چاہے تو رخصت پر بھی عمل کر سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا طرز عمل چونکہ امت کے لیے اسوہ اور نمونہ ہے، اس لیے آپ ﷺ نے کبھی سفر میں روزے رکھے اور کبھی قضا کئے تا کہ امتی اپنے حالات کے مطابق جس طریقے پر چاہیں عمل کر سکیں .... اس سلسلے کے آپ ﷺ کے ارشادات اور طرز عمل سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ سفر میں روزہ رکھنے سے اگر دوسرے ضروری کاموں کا حرج اور نقصان ہوتا ہو تو روزہ قضا کرنا بہتر ہے اور اگر ایسی بات نہ ہو تو پھر روزہ رکھنا بہتر ہے۔
Top