معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 918
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ » (رواه البخارى ومسلم)
افطار میں تعجیل اور سحری میں تاخیر کا حکم
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جب تک میری امت کے لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے وہ اچھے حال میں رہیں گے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اسی مضمون کی حدیث مسند احمد میں حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے مروی ہے اور اس میں مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ کے آگے وَأَخَّرُوا السُّحُورَ بھی ہے (یعنی اس امت کے حالات اس وقت تک اچھے رہیں گے جب تک کہ افطار میں تاخیر نہ کرنا بلکہ جلدی کرنا، اور سحری میں جلدی نہ کرنا بلکہ تاخیر کرنا اس کا طریقہ اور طرز عمل رہے گا۔ اس کا راز یہ ہے کہ افطار میں جلدی کرنا اور سحری میں تاخیر کرنا شریعت کا حکم اور اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے، اور اس میں عام بندگان خدا کے لیے سہولت اور آسانی بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور نگاہ کرم کا ایک مستقل وسیلہ ہے اس لیے امت جب تک اس پر عامل رہے گی وہ اللہ تعالیٰ کی نظر کرم کی مستحق رہے گی اور اس کے حالات اچھے رہیں گے، اور اس کے برعکس افطار میں تاخیر اور سحری میں جلدی کرنے میں چونکہ اللہ کے تمام بندوں کے لیے مشقت ہے اور یہ ایک طرح کی بدعت اور یہود و نصاریٰ کا طریقہ ہے اس لیے وہ اس امت کے لیے بجائے رضا اور رحمت کے اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہے، اس واسطے جب امت اس طریقے کو اپنائے گی تو اللہ تعالیٰ کی نظر کرم سے محرورم ہو گی اور اس کے حالات بگڑیں گئے۔ افطار میں جلدی کا مطلب یہ ہے کہ جب آفتاب غروب ہونے کا یقین ہو جائے تو پھر تاخیر نہ کی جائے اور اسی طرح سحری میں تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ صبح صادق سے بہت پہلے سحری نہ کھا لی جائے بلکہ جب صبح صادق کا وقت قریب ہو تو اس وقت کھایا پیا جائے۔ یہی رسول اللہ ﷺ کا معمول اور دستور تھا۔
Top