معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 905
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : " السُّنَّةُ عَلَى الْمُعْتَكِفِ : أَنْ لَا يَعُودَ مَرِيضًا ، وَلَا يَشْهَدَ جَنَازَةً ، وَلَا يَمَسَّ امْرَأَةً ، وَلَا يُبَاشِرَهَا ، وَلَا يَخْرُجَ لِحَاجَةٍ ، إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ ، وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ ، وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدٍ جَامِعٍ " (رواه ابوداؤد)
اعتکاف
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ معتکف کے لیے شرعی دستور اور ضابطہ یہ ہے کہ وہ نہ مریض کی عیادت کو جائے، نہ نماز جنازہ میں شرکت کے لیے باہر نکلے، نہ عورت سے صحبت کرنے، نہ بوس و کنار کرے اور اپنی ضرورتوں کے لیے بھی مسجد سے باہر نہ جائے سوائے ان حوائج کے جو بالکل ناگزیر ہیں (جیسے پیشاب پاخانہ وغیرہ) اور اعتکاف (روزہ کے ساتھ ہونا چاہئے) بغیر روزہ کے اعتکاف نہیں، اور مسجد جامع میں ہونا چاہئے، اس کے سوا نہیں۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
اس سلسلہ معارف الحدیث میں یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ صحابہ کرام ؓ میں سے جب کوئی یہ کہے کہ " سنت " یہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شرعی مسئلہ یہ ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ مسئلہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد یا طرز عمل سے جانا ہے۔ اس لیے یہ حدیث مرفوع ہی کے حکم میں ہوتا ہے، اس بناء پر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی اس حدیث میں اعتکاف کے جو مسائل بیان کئے گئے ہیں وہ نبوی ہدایات ہی کے حکم میں ہیں، اس کے بالکل آخر میں " مسجد جامع " کا جو لفظ ہے اس سے مراد جماعت والی مسجد ہے۔ یعنی ایسی مسجد جس میں پانچوں وقت جماعت پابندی سے ہوئی ہو .... حضرت امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اعتکاف کے لیے روزہ بھی شرط ہے اور جماعت والی مسجد کا ہونا بھی۔
Top