معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 899
عَنْ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ ، يَقُولُ : سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، فَقُلْتُ : إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ : مَنْ يَقُمِ الْحَوْلَ يُصِبْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ؟ فَقَالَ رَحِمَهُ اللهُ : أَرَادَ أَنْ لَا يَتَّكِلَ النَّاسُ ، أَمَا إِنَّهُ قَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي رَمَضَانَ ، وَأَنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ ، وَأَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ ، ثُمَّ حَلَفَ لَا يَسْتَثْنِي ، أَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ ، فَقُلْتُ : بِأَيِّ شَيْءٍ تَقُولُ ذَلِكَ؟ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ ، قَالَ : بِالْعَلَامَةِ ، أَوْ بِالْآيَةِ الَّتِي « أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا تَطْلُعُ يَوْمَئِذٍ ، لَا شُعَاعَ لَهَا » (رواه مسلم)
عشرہ اخیر اور لیلۃ القدر
زرابن حبیش جو اکابر تابعین میں سے ہیں بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے دریافت کیا کہ آپ کے دینی بھائی عبد اللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ جو کوئی پورے سال کی راتوں میں کھڑا ہو گا (یعنی ہر رات عبادت کیا کرے گا) اس کو شب قدر نصیب ہو ہی جائے گی (یعنی لیلۃ القدر سال کی کوئی نہ کوئی رات ہے، پس جو اس کی برکات کا طالب ہو اسے چاہئے کہ سال کی ہر رات کو عبادت سے معمور کرے اس طرح وہ یقینی طور پر شب قدر کی برکات پا سکے گا .... زر ابن حبیش نے حضرت ابن مسعود ؓ کی یہ بات نقل کر کے حضرت ابی بن کعب سے دریافت کیا کہ آپ کا اس بارے میں کیا ارشاد ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ بھائی ابن مسعود پر خدا کی رحمت ہو، ان کا مقصد اس بات سے یہ تھا کہ لوگ (کسی ایک ہی رات کی عبادت پر) قناعت نہ کر لیں ورنہ ان کو یہ بات یقیناً معلوم تھی کہ شب قدر رمضان ہی کے مہینہ میں ہوتی ہے اور اس کے بھی خاص آخری عشرہ ہی میں ہوتی ہے (یعنی اکیسویں سے انتیسویں یا تیسویں تک) اور وہ معین ستائیسویں شب ہے۔ پھر انہوں نے پوری قطعیت کے ساتھ قسم کھا کر کہا کہ: وہ بلا شبہ ستائیسویں شب ہی ہوتی ہے (اور اپنے یقین و اطمینان کے اظہار کے لیے قسم کے ساتھ) انہوں نے ان شاء اللہ بھی نہیں کہا (زر ابن حبیش کہتے ہیں کہ) میں نے عرض کیا کہ اے ابو المنذر! (یہ حضرت ابی کی کنیت ہے) یہ آپ کس بناء پر فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ: میں یہ بات اس نشانی کی بناء پر کہتا ہوں جس کی رسول اللہ ﷺ نے ہم کو خبر دی تھی، اور وہ یہ کہ شب قدر کی صبح کو جب سورج نکلتا ہے تو اس کی شعاع نہیں ہوتی۔ (صحیح مسلم)

تشریح
حضرت ابی بن کعب ؓ کے جواب سے معلوم ہوا کہ انہوں نے جو قطعیت کے ساتھ یہ بات کہی کہ شب قدر معین طور پر ستائیسویں شب ہی ہوتی ہے۔ یہ بات نہوں نے رسول اللہ ﷺ سے نہیں سنی تھی، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی جو ایک خاص نشانی بتائی تھی انہوں نے چونکہ وہ نشانی عموماً سائیسویں شب کی صبح ہی کو دیکھی تھی، اس لیے یقین کے ساتھ انہوں نے رائے قائم کر لی تھی ..... رسول اللہ ﷺ نے کبھی تو یہ فرمایا کہ اس کو آخری عشرہ میں تلاش کرو، اور کبھی فرمایا کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو، کبھی عشرہ اخیرہ کی پانچ طاق راتوں میں سے چار یا تین راتوں کے لیے فرمایا، کسی خاص رات کی تعیین آپ نے نہیں فرمائی۔ ہاں بہت سے اصحاب ادراک کا تجربہ یہی ہے کہ وہ زیادہ تر ستائیسویں شب ہی ہوتی ہے .... اس عدم تعیین کی بڑی حکمت یہی ہے کہ طالب بندے مختلف راتوں میں عبادت و ذکر و دعا کا اہتمام کریں، ایسا کرنے والوں کی کامیابی یقینی ہے۔
Top