معارف الحدیث - کتاب الزکوٰۃ - حدیث نمبر 884
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنَ عَمْرُو بْنَ الْعَاصَ أَنَّ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ نَذَرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ يَنْحَرَ مِائَةَ بَدَنَةٍ وَأَنَّ هِشَامَ بْنَ الْعَاصِي نَحَرَ حِصَّتَهُ خَمْسِينَ بَدَنَةً وَأَنَّ عَمْرًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَ : « أَمَّا أَبُوكَ ، فَلَوْ كَانَ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ ، فَصُمْتَ ، وَتَصَدَّقْتَ عَنْهُ ، نَفَعَهُ ذَلِكَ » (رواه احمد)
مرنے والوں کی طرف صدقہ
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ ان کے دادا عاص بن وائل نے زمانہ جاہلیت میں سو اونٹ قربان کرنے کی نذر مانی تھی (جس کو وہ پورا نہیں کر سکے تھے) تو ان کے ایک بیٹے ہشام بن العاص نے تو پچاس اونٹوں کی قربانی (اپنے باپ کی اس نذر کے حساب میں) کر دی، اور دوسرے بیٹے عمرو بن العاص نے (جن کو اللہ نے اسلام کی توفیق دے دی تھی) رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اگر تمہارے باپ ایمان لے آئے ہوتے اور پھر تم ان کی طرف سے روزے رکھتے یا صدقہ کرتے، تو ان کے لیے نفع مند ہوتا (اور اس کا ثواب ان کو پہنچتا، لیکن کفر و شرک کی حالت میں مرنے کی وجہ سے اب تمہارا کوئی عمل ان کے کام نہیں آ سکتا)۔ (مسند احمد)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے ان حدیثوں میں (اور ان کے علاوہ بھی بہت سی حدیثوں میں جو کتب حدیث کے مختلف ابواب میں مروی ہیں) یہ بات پوری صراحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے کہ صدقہ وغیرہ جو قابل قبول نیک عمل کسی مرنے والے کی طرف سے کیا جائے یعنی اس کا ثواب اس کو پہچایا جائے وہ اس کے لیے نفع مند ہو گا اور اس کو اس کا ثواب پہنچے گا .... گویا جس طرح اس دنیا میں ایک آدمی اپنا کمایا ہوا پیسہ اللہ کے کسی دوسرے بندے کو دے کر اس کی خدمت اور مدد کر سکتا ہے اور وہ بندہ اس سے نفع اٹھا سکتا ہے اسی طرح اگر کوئی صاحب ایمان اپنے مرحوم ماں باپ یا کسی دوسرے مومن بندہ کی طرف سے صدقہ کر کے اس کو آخرت میں نفع پہنچانا اور اس کی خدمت کرنا چاہے تو مندرجہ بالا حدیثوں نے بتایا کہ ایسا ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ کتنا عظیم فضل و احسان ہے اللہ تعالیٰ کا کہ اس راستے سے ہم اپنے ماں باپ اور دوسرے عزیزوں قریبوں اور دوستوں محسنوں کی خدمت ان کے مرنے کے بعد بھی کر سکتے ہیں، اور اپنے ہدئیے اور تحفے ان کو برابر بھیج سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ احادیث نبویہ سے بھی ثابت ہے اور اس پر امت کے ائمہ حق کا اجماع بھی ہے۔ ہمارے زمانہ کے بعض ان لوگوں نے جو حدیث و سنت کو کتاب اللہ کے بعد دین و شریعت کی ثانوی اساس بھی نہیں مانتے، اور اس کے حجت دینی ہونے کے قطعی منکر ہیں، اس مسئلہ سے نکار کیا ہے .... اس عاجز نے اب سے قریباً ۲۰ سال پہلے ایک مستقل مبسوط رسالہ اس موضوع پر لکھا تھا، اس میں اس مسئلہ کے ہر پہلو پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے اور منکرین کے ہر شبہ کا جواب دیا گیا ہے۔ الحمد للہ وہ اس موضوع پر کافی شافی ہے۔ کتاب الزکوٰۃ کو ہم اسی پر ختم کر کے کتاب الصوم شروع کرتے ہیں۔ اللَّهُمَّ , لَكَ الْحَمْدُ وَأَنْتَ الْمُسْتَعَانُ
Top