معارف الحدیث - کتاب الزکوٰۃ - حدیث نمبر 862
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، دَخَلَ عَلَى بِلَالٍ وَعِنْدَهُ صُبْرَةٌ مِنْ تَمْرٍ ، فَقَالَ : " مَا هَذَا يَا بِلَالُ؟ " قَالَ : تَمْرٌ ادَّخَرْتُهُ ، قَالَ : " أَمَا تَخْشَى ، أَنْ تَرَى لَهُ بُخَارٌ فِي نَارِ جَهَنَّمَ يَوْم الْقِيَامَةِ؟ أَنْفِقْ يَا بِلَالُ وَلَا تَخْشَ مِنْ ذِي الْعَرْشِ إِقْلَالًا " (رواه البيهقى فى شعب الايمان)
انفاق کے بارے میں اصحاب یقین و توکل کی راہ
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن حضرت بلال ؓ کی قیام گاہ پہنچے اور دیکھا کہ ان کے پاس چھواروں کا ایک ڈھیر ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بلال یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اس کو آئندہ کے لیے ذخیرہ بنایا ہے (تا کہ مستقبل میں روزی کی طرف سے ایک گونہ اطمینان رہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بلال! کیا تمہیں اس کا ڈر نہیں ہے کہ کل قیامت کے دن آتش دوزخ میں تم اس کی تپش اور سوزش دیکھو۔ اے بلال! جو ہاتھ پاس آئے اس کو اپنے پر اور دوسروں پر خرچ کرتے رہو اور عرش عظیم کے مالک سے قلت کا خوف نہ کرو (یعنی یقین رکھو کہ جس طرح اس نے یہ دیا ہے آئندہ بھی اسی طرح عطا فرماتا رہے گا، اس کے خزانہ میں کیا کمی ہے، اس لیے کل کے لیے ذخیرہ رکھنے کی فکر نہ کرو)۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
حضرت بلال ؓ اصحاب صفہ میں سے تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ والی متوکلانہ زندگی کا طریقہ اپنایا تھا۔ ان کے لیے مستقبل کے واسطے غـذا کا ذخیرہ کرنا بھی مناسب نہ تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کو یہ ہدایت فرمائی۔ اگرچہ عام لوگوں کے لیے یہ بات بالکل جائز ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعض صحابہ کو بھی اس سے روکا تھا کہ وہ اپنا سارا مال راہ خدا میں خرچ کر دیں اور گھر والوں کے لیے کچھ نہ رکھیں .... لیکن صحابہ میں سے جن حضرات نے رسول اللہ ﷺ اور اصحاب صفہ والی خالص توکل کی راہ اپنائی تھی ان کے لیے اس طرز عمل کی گنجائش نہ تھی .... ع " جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے " حدیث کے آخری فقرے میں اشارہ ہے .... کہ اللہ کا جو بندہ خیر کی راہوں میں ہمت کے ساتھ صرف کرے گا .... وہ اللہ تعالیٰ کی عطا مین کبھی کمی نہ پائے گا۔
Top