معارف الحدیث - کتاب الزکوٰۃ - حدیث نمبر 845
عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لاَ تَحِلُّ لِغَنِيٍّ ، وَلاَ لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ ، إِلاَّ لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ ، أَوْ غُرْمٍ مُفْظِعٍ ، وَمَنْ سَأَلَ النَّاسَ لِيُثْرِيَ بِهِ مَالَهُ ، كَانَ خُمُوشًا فِي وَجْهِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ ، وَرَضْفًا يَأْكُلُهُ مِنْ جَهَنَّمَ ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيُقِلَّ ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيُكْثِرْ (رواه الترمذى)
کن حالات میں سوال کرنے کی اجازت ہے اور کن حالات میں ممانعت
حبشی بن جنادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سوال کرنا جائز نہیں ہے غنی آدمی کو اور نہ توانا اور تندرست آدمی کو۔ البتہ ایسے آدمی کو جائز ہے جس کو ناداری اور افلاس نے زمین پر گرا دیا ہو یا جس پر قرض یا کسی تاوان وغیرہ کا کوئی بھاری بوجھ پڑ گیا ہو، اور جو آدمی (محتاجی کی وجہ سے نہیں بلکہ) اپنے مال کے اضافے کے لیے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور سوال کرے تو قیامت کے دن اس کا یہ سوال اس کے چہرے پر ایک زخم اور گھاؤ کی شکل میں نمایاں ہو گا۔ اور جہنم کا گرم جلتا ہوا پتھر ہو گا جس کو وہاں وہ کھائے گا، اس کے بعد جس کا جی چاہے سوال کم کرے اور جس کا جی چاہے زیادہ کرے (اور آخرت میں اس کا یہ نتیجہ بھگتے)۔ (جامع ترمذی)

تشریح
حضرات محدثین " کتاب الزکوٰۃ " ہی میں وہ حدیثیں بھی درج کرتے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ جن حالات میں سوال کرنے کی ممانعت ہے اور کن حالات میں اجازت ہے۔ ان کے اس طریقے کی پیروی میں اس سلسلہ " معارف الحدیث " میں بھی وہ حدیثیں یہیں درج کی جاتی ہیں: تشریح ..... اس حدیث میں بھی عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کی حدیث (نمبر ۱۴) کی طرح غنی سے مراد وہ آدمی ہے جو فی الحال محتاج اور ضرورت مند نہ ہو (اگرچہ وہ صاحب نصاب اور سرمایہ دار بھی نہ ہو) ایسے آدمی کو اور اس تندرست و توانا آدمی کو جو محنت کر کے اپنی روزی کما سکتا ہو، اس حدیث میں سوال کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ عام ضابطہ اور مسئلہ یہی ہے کہ ایسے آدمی کو کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرنا چاہئے۔ ہاں اگر افلاس و ناداری نے کسی کو بالکل ہی گرا دیا ہو اور سوال کے سوا اس کے سامنے کوئی راہ نہ ہو، یا کسی کو کوئی جرمانہ یا تاوان یا قرض ادا کرنا ہو اور وہ دوسروں سے امداد لیے بغیر اس کو ادا نہ کر سکتا ہو تو ان صورتوں میں اس کو سوال کرنے کی اجازت ہے .... آخر میں فرمایا گیا ہے کہ جو شخص ضرورت مندی اور محتاجی کی مجبوری سے نہیں بلکہ اپنی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے گا اس کو قیامت میں اس کی سزا یہ دی جائے گی کہ اس کے چہرے پر ایک بدنما گھاؤ ہو گا .... اور جو کچھ اس نے سوال کر کے لوگوں سے لیا تھا وہ وہاں جہنم کا گرم پتھر بنا دیا جائے اور وہ اسے کھانے پر مجبور ہو گا۔
Top