معارف الحدیث - کتاب الزکوٰۃ - حدیث نمبر 839
عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي رَجُلَانِ : أَنَّهُمَا أَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ ، وَهُوَ يُقَسِّمُ الصَّدَقَةَ ، فَسَأَلَاهُ مِنْهَا ، فَرَفَعَ فِينَا الْبَصَرَ وَخَفَضَهُ ، فَرَآنَا جَلْدَيْنِ ، فَقَالَ : « إِنَّ شِئْتُمَا أَعْطَيْتُكُمَا ، وَلَا حَظَّ فِيهَا لِغَنِيٍّ ، وَلَا لِقَوِيٍّ مُكْتَسِبٍ » (رواه ابوداؤد والنسائى)
زکوٰۃ اور صدقات کے مستحقین
حضرت عبید اللہ بن الخیار تابعی نقل کرتے ہیں کہ مجھے دو آدمیوں نے بتایا کہ وہ دونوں حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور آپ ﷺ اس وقت زکوٰۃ کے اموال تقسیم فرما رہے تھے، تو ہم دونوں نے بھی اس میں سے کچھ مانگا، آپ ﷺ نے نظر اٹھا کر ہمیں اوپر سے نیچے تک دیکھا، تو آپ ﷺ نے ہم کو تندرست و توانا محسوس کیا، پھر فرمایا کہ اگر تم چاہو تو میں تمہیں دے دوں (مگر یہ سمجھ لو کہ) ان اموال میں مالداروں کا اور ایسے تندرست و توانا لوگوں کا حصہ نہیں ہے، جو اپنی معاش کمانے کے قابل ہوں۔ (سنن ابی داؤد، سنن نسائی)

تشریح
ان دونوں حدیثوں میں غنی سے مراد غالباً وہ آدمی ہے جس کے پاس اپنے کھانے، کپڑے جیسی ضروریات کے لیے کچھ سامان موجود ہو اور اسے فی الحال ضرورت نہ ہو، ایسے آدمی کو اگر وہ مالک نصاب نہیں ہے زکوٰۃ دی جائے، تو اگچہ ادا ہو جائے گی، لیکن خود اس آدمی کو زکوٰۃ لینے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اسی طرح جو آدمی تندرست و توانا ہو اور محنت کر کے روزی کما سکتا ہو اس کو بھی زکوٰۃ لینے سے بچنا چاہئے .... عام ضابطہ یہی ہے، اور ان دونوں حدیثوں میں اسی عام ضابطہ کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ لیکن خاص حالات میں ایسے لوگوں کو بھی زکوٰۃ لینے کی گنجائش ہے۔ اسی لیے عبیداللہ بن عدی والی دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے ان دونوں صاحبوں سے یہ بھی فرمایا کہ: " اگر تم لینا چاہو تو میں دے دوں گا "۔ إِنَّ شِئْتُمَا أَعْطَيْتُكُمَا
Top