معارف الحدیث - کتاب الزکوٰۃ - حدیث نمبر 836
عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِيَّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ أَتَيْتُ النَّبِىَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَايَعْتُهُ ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَ حَدِيثًا طَوِيلًا ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ : ‏‏‏‏ أَعْطِنِي مِنَ الصَّدَقَةِ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ‏‏‏‏ "إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَرْضَ بِحُكْمِ نَبِيٍّ وَلَا غَيْرِهِ فِي الصَّدَقَاتِ حَتَّى حَكَمَ هُوَ فَجَزَّأَهَا ثَمَانِيَةَ أَجْزَاءٍ فَإِنْ كُنْتَ مِنْ تِلْكَ الْأَجْزَاءِ أَعْطَيْتُكَ حَقَّكَ". (رواه ابوداؤد)
زکوٰۃ اور صدقات کے مستحقین
زیاد بن حارث صدائی ؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے آپ ﷺ سے بیعت کی، زیاد نے اس موقع پر ایک طویل حدیث ذکر کی، اور اسی سلسلہ میں یہ واقعہ نقل کیا کہ آپ ﷺ کی خدمت میں اس وقت ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا: زکوٰۃ کے مال میں سے مجھے کچھ عنایت فرمائیے، رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایاکہ: اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے مصارف کو نہ تو کسی نبی کی مرضی پر چھوڑا ہے اور نہ کسی غیر نبی کی مرضی پر، بلکہ خود ہی فیصلہ فرما دیا ہے اور ان کے آٹھ حصے (یعنی آٹھ قسمیں) کر دی ہیں تو اگر تم ان قسموں میں سے کسی قسم کے آدمی ہو تو میں زکوٰۃ میں سے تم کو دے دوں گا "۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں مصارف زکوٰۃ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے جس حکم کا حوالہ دیا ہے وہ سورہ توبہ کی اس آیت میں مذکور ہے: إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَابْنِ السَّبِيلِ (سورہ توبہ ۶۰: ۹) زکوٰة بس حق ہے مفلسوں اور محتاجوں کا اور تحصیل وصول کا کام کرنے والوں کا اور مؤلفۃ القلوب کا، اور نیز وہ صرف کی جا سکتی ہے غلاموں کی آزادی دلانے اور ان کی گلو خلاصی کرانے اور ان لوگوں کی مدد میں جو قرض وغیرہ کی مصیبت میں مبتلا ہوں، اور (اسی طرح) مجاہدوں اور مسافروں کی مدد میں۔ فقراء: یعنی عام غریب اور مفلس لوگ .... فقیر عربی زبان میں غنی کے مقابلے میں بولا جاتا ہے، اس لحاظ سے وہ تمام ٖغریب لوگ اس میں آ جاتے ہیں جو غنی نہیں ہیں (یعنی جن کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے جس پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے)۔ شریعت میں غناء کا معیار ییہ ہے۔ کتاب الزکوٰۃ کے بالکل شروع میں حضرت معاذ ؓ کی حدیث گزر چکی ہے جس میں زکوٰۃ کے بارے میں ارشاد ہوا ہے۔ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ اِلَى فُقَرَائِهِمْ مساکین: وہ حاجت مند جن کے پاس اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھ نہ ہو ار بالکل خالی ہاتھ ہوں۔ عاملین: یعنی زکوٰۃ کی تحصیل وصول کرنے والا عملہ .... یہ لوگ اگر بالفرض غنی بھی ہوں جب بھی ان کی محنت اور ان کے وقت کا معاوضہ زکوٰۃ سے دیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں یہی دستور تھا۔ مؤلفۃ القلوب: ایسے لوگ جن کی تالیف قلب اور دلجوئی اہم دینی و ملی مصالح کے لیے ضروری ہو، وہ اگر دولت مند بھی ہوں تب بھی اس مقصد کے لیے زکوٰۃ کی مد سے ان پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ رقاب: یعنی غلاموں اور باندیوں کی آزادی اور گلو خلاصی .... اس مد میں بھی زکوٰۃ خرچ کی جا سکتی ہے۔ غارمین: جن لوگوں پر کوئی ایسا مالی بار آ پڑا ہو، جس کے اٹھانے کی ان میں طاقت نہ ہو، جیسے اپنی مالی حیثیت سے زیادہ قرض کا بوجھ یا کوئی دوسرا مالی تاوان .... ان لوگوں کی مدد بھی زکوٰۃ سے کی جا سکتی ہے۔ فی سبیل اللہ: علماء اور ائمہ کے نزدیک اس سے مراد دین کی نصرت و حفاظت اور اعلاء کلمۃ اللہ کے سلسلے کی ضروریات ہیں۔ ابن السبیل: اس سے مراد وہ مسافر ہیں جنہیں مسافرت میں ہونے کی وجہ سے مدد کی ضرورت ہو۔ زیاد بن حارث صدائی کی اس حدیث میں جن صاحب کے متعلق یہ ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ﷺ زکوٰۃ کے مال میں سے مجھے کچھ عنایت فرما دیجئے! انہیں جواب دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف خود ہی مقرر فرما دئیے ہیں، اگر تم ان میں سے کسی طبقہ میں داخل ہو تو میں دے سکتا ہوں، اور اگر ایسا نہیں ہے پھر مجھے یہ حق اور اختیار نہیں ہے کہ اس مد میں سے تم کو کچھ دے سکوں ..... (یہاں صرف حدیث کی تشریح اور تفہیم کے لیے مصارف کا مختصر بیان کر دیا گیا ہے۔ تفصیلی مسائل فقہ کی کتابوں میں دیکھے جائیں، یا علماء و اصحاب فتویٰ سے دریافت کئے جائیں)۔
Top