معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 822
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : مَرَّ النَّبِىُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ الْمَدِينَةِ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمْ بِوَجْهِهِ ، فَقَالَ : السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ القُبُورِ ، يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ ، أَنْتُمْ سَلَفُنَا ، وَنَحْنُ بِالأَثَرِ. (رواه الترمذى)
زیارت قبور
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر مدینہ ہی میں چند قبروں پر ہوا، آپ ﷺ نے ان کی طرف رخ کیا اور فرمایا " السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ القُبُورِ " (سلام ہو تم پر اے قبر والوں! اللہ تعالیٰ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے، تم ہم سے آگے جانے والے ہو اور ہم پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔ (جامع ترمذی)

تشریح
ان دونوں حدیثوں میں قبر والوں پر سلام و دعا کے جو کلمات وارد ہوئے ہیں، جن میں صرف الفاظ کا معمولی سا فرق ہے۔ ان میں ان کے واسطے بس سلام اور دعائے مغفرت ہے، اور ساتھ ہی اپنی موت کی یاد ہے۔ معلوم ہوا کہ یہی دو چیزیں کسی کی قبر پر جانے کا اصل مقصد ہونی چاہئیں، اور صحابہ کرام اور ان کے تابعین بالاحسان کا طریقہ یہی تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں انہی کے طریقے پر قائم رکھے اور اسی پر اٹھائے۔
Top