معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 789
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : اشْتَكَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ شَكْوَى لَهُ ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ فَوَجَدَهُ فِي غَاشِيَةِ ، فَقَالَ : « قَدْ قَضَى » قَالُوا : لاَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَبَكَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا رَأَى القَوْمُ بُكَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكَوْا ، فَقَالَ : « أَلاَ تَسْمَعُونَ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُعَذِّبُ بِدَمْعِ العَيْنِ ، وَلاَ بِحُزْنِ القَلْبِ ، وَلَكِنْ يُعَذِّبُ بِهَذَا وَأَشَارَ إِلَى لِسَانِهِ أَوْ يَرْحَمُ ، وَإِنَّ المَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ » (رواه البخارى ومسلم)
میت پر گریہ و بکا اور نوحہ و ماتم
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ ؓ ایک دفعہ مریض ہوئے۔ تو رسول اللہ ﷺ عبدالرحمٰن بن عوف ‘ سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود ؓ کو ساتھ لئے ان کی عیادت کے لئے آئے۔ آپ ﷺ جب اندر تشریف لائے تو ان کو آپ ﷺ نے " غاشیہ " میں یعنی بڑی سخت حالت میں دیکھا (یا یہ کہ آپ ﷺ نے ان کو اس حال میں دیکھا کہ ان کے گرد آدمیوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے) تو آپ ﷺ نے فرمایا: " ختم ہو چکے " (یہ بات آپ ﷺ نے یا تو ان کی حالت سے مایوس ہو کر اپنے اندازہ سے فرمائی یا بطور استفہام ان لوگوں سے آپ ﷺ نے دریافت کیا جو پہلے سے وہاں موجود تھے۔ ان لوگوں نے کہا نہیں حضرت! ابھی ختم تو نہیں ہوئے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ کو (ان کی وہ حالت دیکھ کر) رونا آ گیا۔ جب اور لوگوں نے آپ ﷺ پر گریہ کے آثار دیکھے تو وہ بھی رونے لگے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگو! اچھی طرح سن لو اور سمجھ لو! اللہ تعالیٰ آنکھ کے آنسو اور دل کے رنج و غم پر تو سزا نہیں دیتا (کیوں کہ اس پر بندہ کا اختیار اور قابو نہیں ہے اور زبان کی طرف اشارہ کر کے آپ ﷺ نے فرمایا) لیکن اس زبان کی (غلط روی پر، یعنی زبان سے نوحہ و ماتم کرنے پر) سزا بھی دیتا ہے اور (اور انا للہ پڑھنے پر اور دعا و استغفار کرنے پر) رحمت بھی فرماتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ میت کے رونے پیٹنے کی وجہ سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)۔

تشریح
کسی کی موت پر اس کے اقارب اور اعزہ و متعلقین کا رنجیدہ و غمگین ہونا اور اس کے نتیجہ میں آنکھوں سے آنسو بہنا اور اسی طرح بے اختیار گریہ کے دوسرے آثاار کا ظاہر ہو جانا بلکل فطری بات ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ اس آدمی کے دل میں محبت اور درد مندی کا جذبہ موجود ہے، جو انسانیت کا ایک قیمتی اور پسندیدہ عنصر ہے، اس لئے شریعت نے اس پر پابندی نہیں عائد کی، بلکہ ایک درجہ میں اس کی تحسین اور قدر افزائی کی ہے، لیکن نوحہ و ماتم اور ارادی و اختیاری طور پر رونے پیٹنے کی سخت ممانعت فرمائی گئی ہے، اولا تو اس لئے کہ یہ مقام عبدیت اور رضا بالقضا کے بالکل خلاف ہے، دوسرے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و فہم کی جو بیش بہا نعمت عطا فرمائی ہے اور حوادث کو انگیز کرنے کی جو خاص صلاحیت بخشی ہے، نوحہ و ماتم اور رونا پیٹنا اس نعمت خداوندی کا گویا کفران ہے۔ نیز اس سے اپنے اور دوسروں کے رنج و غم میں اضافہ ہوتا ہے اور فکر و عمل کی قوت کم از کم اس وقت مفلوج اور معطل ہو جاتی ہے علاوہ ازیں نوحہ و ماتم اور رونا پیٹنا میت کے لئے بھی باعث تکلیف ہوتا ہے۔ تشریح ..... اس حدیث کا اصل پیغام تو یہی ہے کہ کسی کے مرنے پر نوحہ و ماتم نہ کیا جائے، یہ چیز اللہ کے غضب اور عذاب کا باعث ہے، بلکہ انا للہ اور دعا و استغفار کے ایسے کلمے پڑھے جائیں اور ایسی باتیں کی جائیں جو اللہ کی رحمت اور اس کے فضل و کرم کا وسیلہ بنیں۔ اس حدیث میں گھر والوں کے رونے پیٹنے کی وجہ سے میت کو عذاب ہونے کا بھی ذکر ہے۔ یہ مضمون رسول اللہ ﷺ سے حضرت ابن عمرؓ کے علاوہ ان کے والد ماجد حضرت عمر بن الخطاب ؓ اور بعض دوسرے صحابہ کرامؓ نے بھی روایت کیا ہے، لیکن حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور ان کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بھی اس سے انکار فرماتے ہیں۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا یہ بیان مروی ہے کہ جب ان کے سامنے حضرت عمرؓ اور ان کے صاحبزادے حضرت ابن عمرؓ کی حدیث اس سلسلہ میں نقل کی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ: یہ دونوں حضرات بلاشبہ صادق ہیں۔ لیکن اس معاملہ میں یا تو ان کو سہو ہوا، یا رسول اللہ ﷺ کی بات سننے یا سمجھنے میں ان کو غلطی ہوئی، رسول اللہ ﷺ نے یہ بات نہیں فرمائی تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے اس بارے میں قرآن مجید کی آیت " لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى " سے بھی استدلال کیا ہے، وہ فرماتی ہیں کہ: اس آیت میں یہ قاعدہ اور اصول بیان کیا گیا ہے کہ کسی آدمی کے گناہ کی سزا دوسرے کو نہیں دی جائے گی، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ روئیں گھر والے اور اس کی سزا دی جائے بے چارے مرنے والے کو۔ لیکن حضرت عمرؓ اور عبداللہ بن عمرؓ نے جس طرح مضمون رسول اللہ ﷺ نے نقل فرمایا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نہ انہیں بھول چوک ہوئی ہے اور نہ غلط فہمی، دوسری طرف حضرت صدیقہ ؓ کا استدلال بھی وزنی ہے، اس لئے شارحین حدیث نے دونوں باتوں میں تطبیق کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کےک لئے توجیہ کے مختلف طریقے اختیار کیے ہیں، ان میں سے ایک جو زیادہ معروف اور سہل الفہم بھی ہے یہ ہے کہ حضرت عمرو بن عمر ؓ کی حدیثوں کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ گھر والوں کے رونے میں مرنے والے کے قصور اور غفلت کو بھی کچھ دخل ہو، مثلا یہ کہ وہ خود رونے اور نوحہ و ماتم کرنے کی وصیت کر گیا ہو جیسا کہ عربوں میں اس کا رواج تھا، یا کم سے کم یہ کہ گھر والوں کو رونے پیٹنے سے اس نے کبھی منع نہ کیا ہو۔ خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں یہی توجیہ کر کے تطبیق کی کوشش کی ہے۔ ایک دوسری توجیہ یہ بھی کی گئی ہے کہ جب میت کے گھر والے اس پر روحہ و ماتم کرتے ہیں اور جاہلانہ رواج کے مطابق اس مرنے والے کے " کارنامے " بیان کر کے اس کو آسمان پر چڑھاتے ہیں تو فرشتے میت سے کہتے ہیں " کیوں جناب آپ ایسے ہی تھے؟ " یہ بات بعض حدیثوں میں بھی وارد ہوئی ہے۔ یہاں اس سلسلہ میں بس اتنا ہی لکھا مناسب سمجھا گیا۔ جو حضرات اہل علم اس سے زیادہ تفصیل چاہیں وہ فتح الملہم شرح صحیح مسلم کی طرف رجوع فرمائیں، اس میں اس مسئلہ پر بہت سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ ملحوظ رہے کہ حضرت سعد بن عبادہ ؓ جن کی سخت بیماری کا اس حدیث میں ذکر ہے، اس بیماری سے صحت یاب ہو گئے تھے، ان کی وفات رسول اللہ ﷺ کے بعد ایک روایت کے مطابق عہد صدیقی میں اور دوسری روایت کے مطابق عہد فاروقی میں ہوئی۔
Top