معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 771
عَنْ عَامِرٍ الرَّامِ قَالَ : ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَسْقَامَ ، فَقَالَ : « إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَصَابَهُ السَّقَمُ ، ثُمَّ أَعْفَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ ، كَانَ كَفَّارَةً لِمَا مَضَى مِنْ ذُنُوبِهِ ، وَمَوْعِظَةً لَهُ فِيمَا يَسْتَقْبِلُ ، وَإِنَّ الْمُنَافِقَ إِذَا مَرِضَ ثُمَّ أُعْفِيَ كَانَ كَالْبَعِيرِ ، عَقَلَهُ أَهْلُهُ ، ثُمَّ أَرْسَلُوهُ فَلَمْ يَدْرِ لِمَ عَقَلُوهُ ، وَلَمْ يَدْرِ لِمَ أَرْسَلُوهُ » (رواه ابوداؤد)
بیماری بھی مومن کے لئے رحمت اور گناہوں کا کفارہ
عامر رامی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ بیماریوں کے سلسلہ میں کچھ ارشاد فرمایا (یعنی بیماری کی حکمتیں اور اس میں جو خیر کا پہلو ہے اس کا تذکرہ فرمایا) اس سلسلہ میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ: جب مرد مومن بیماری میں مبتلا ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کو صحت و عافیت دیتا ہے تو یہ بیماری اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے اور مستقبل کے لئے نصیحت و تنبیہ کا کام کرتی ہے اور (خدا و آخرت سے غافل و بے پرواہ) منافق آدمی جب بیمار پڑتا ہے اور اس کے بعد اچھا ہو جاتا ہے (تو وہ اس سے کوئی سبق نہیں لیتا اور کوئی نفع نہیں اٹھاتا) اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جس کو اس کے مالک نے باندھ دیا، پھر کھول دیا، لیکن اس کو کوئی احساس نہیں کیوں اس کو باندھا اور کیوں کھولا۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کے ان سب ارشادات کا خاص سبق اور پیغام یہی ہے کہ بیماریوں اور دوسری تکلیفوں اور پریشانیوں کو (جو اس دنیوی زندگی کا گویا لازمہ ہیں) صرف مصیبت اور اللہ تعالیٰ کے غضب اور قہر کا ظہور ہی نہ سمجھنا چاہیے۔ اللہ سے صحیح تعلق رکھنے والے بندوں کے لئے ان میں بھی بڑا خیر اور رحمت کا بڑا سامان ہے، ان کے ذریعہ کے ذریعہ گناہوں کی صفائی اور تطہیر ہوتی ہے، اللہ تعوالیٰ کی خاص عنایات اور بلند درجات کا استحقاق حاصل ہوتا ہے اعمال کی کمی کی کسر پوری ہوتی ہے۔ اور ان کے ذریعہ سعادت مند بندوں کی تربیت ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی اس تعلیم کی یہ کتنی عظیم برکت ہے کہ جن بندوں کو ان حقیقتوں کا یقین ہے وہ بڑی سے بڑی بیماری اور مصیبت کو بھی اللہ تعالیٰ کی عنایت و رحمت کی ایک صورت سمجھتے ہیں۔ اپنے جن بندوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ دولت نصیب فرمائی ہے بس وہی جانتے ہیں کہ یہ کتنی عظیم نعمت ہے اور اس سے بیماری اور مصیبت کے حال میں بھی دل اور روح کو کتنی تقویت حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور محبت میں کتنی ترقی اور کس قدر اضافہ ہوتا ہے۔
Top