معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 760
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَكْثِرُوا مِنْ ذِكْرِ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ المَوْتِ. (رواه الترمذى والنسائى وابن ماجه)
نماز جنازہ ، اور اس کے قبل و بعد
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگو! موت کو یاد کرو اور یاد رکھو جو دنیا کی لذتوں کو ختم کر دینے والی ہے۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلوٰۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت موت، مرض الموت بلکہ مطلق مرض و دیگر مصائب و بلیات اور ان حوادث کے وقت کے طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت، یہاں تک کہ زیارت قبور ان سب ہی امور کے متعلق حدیثیں درج کرتے ہیں۔ اس دستور کی پیروی میں یہاں بھی ان تمام امور سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اور معمولات اسی طرح ذکر کئے جائیں گے۔ ان حدیثوں سے جو کچھ معلوم ہو گا ان کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ موت چونکہ یقیناً آنے والی ہے، اور اس کا کوئی وقت معلوم نہیں ہے، اس لئے مسلمان کو چاہئے کہ کسی وقت بھی اس سے غافل نہ ہو، ہمیشہ اس کو یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے۔ خصوصا جب بیمار ہو تو اپنی دینی و ایمانی حالت کو درست کرنے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو صحیح کرنے کی زیادہ فکر کرے، دوسرے بھائی اس کی خدمت و ہمدردی اور اس کا غم ہلکا کرنے اور جی بہلانے کی کوشش کریں، اور اس کے سامنے اجر و ثواب کی باتیں اور اللہ تعالیٰ کی شان رحمت کے خوش آئند تذکرے کریں۔ خصوصا جب محسوس ہو کہ مریض بظاہر اچھا ہونے والا نہیں اور سفر آخرت کے قریب ہے تو اس کے دل کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے کی اور کلمہ ایمان کی یاد دہانی کی مناسب طریقے پر کوشش کریں۔ پھر جب موت وارد ہو جائے تو اس کے اقارب صبر سے کام لیں، طبعی اور فطری رنج و غم کے باوجود موت کو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ سمجھ کر وفادار بندے کی طرح اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں، اور اس کے کرم سے اس صدمہ پر اجر و ثواب کی امید رکھیں اور اس کی دعائیں کریں۔ پھر میت کو غسل دیا جائے، پھر اس کو اچھے صاف ستھرے کپڑوں میں کفنایا جائے، اور خوشبو کا استعمال کیا جائے۔ پھر اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے جس میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور تسبیح و تقدیس ہو، اس کی عظمت و کبریائی کا اعتراف و اقرار ہو، اللہ کے نبی و رسول حضرت محمد ﷺ کے لئے دعائے رحمت ہو جن سے اس میت کو اور نماز پڑھنے والوں کو ہدایت ملی، اس سب کے بعد مرنے والے بھائی کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش اور رحم و کرم کی دعا اور التجا ہو، پھر پورے اعزاز و احترام کے ساتھ اس کا اس زمین کے سپرد کر دیا جائے اور اس کی گود میں دے دیا جائے جس کے اجزاء سے اس کا جسم بنا اور پلا تھا، اور جو ایک طرح سے گویا اس کی ماں تھی۔ پھر لوگ زبانی اور عملی طور پر میت کے اقارت اور گھر والوں کی غمخواری اور ہمدردی کریں اور ان کی تسلی و تشفی اور غم ہلکا کرنے کی کوشش کریں۔ ان میں سے ہر بات کی حکمت اور مصلحت بالکل ظاہر ہے اور یہ واقعہ اور تجربہ ہے کہ مرض و موت اور دوسری مصیبتوں میں رسول اللہ ﷺ کی ان ہدایات پر عمل کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے، اور اس سلسلہ کی آپ ﷺ کی ہر تعلیم و ہدایت دل کے زخم کا مرہم اور صدمہ کی دوا بن جاتی ہے، اور موت تو لقاء الٰہی کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے محبوب و مطلوب ہو جاتی ہے۔ یہ تو ان ہدیت کے دینوی اور نقد برکات ہیں، اور آخرت میں ان شاء اللہ وہ سب سامنے آنے والا ہے۔ جس کا وعدہ آگے آنے والی حدیثوں میں کیا گیا ہے۔ اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی حدیثیں پڑھئے۔
Top