معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 759
عَنْ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَاضِعًا مُتَبَذِّلًا ، مُتَخَشِّعًا ، مُتَضَرِّعًا. (رواه الترمذى وابوداؤد والنسائى وابن ماجه)
نماز استسقا
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز استسقا کے لئے چلے تو آپ ﷺ بہت معمولی اور کم حیثیت لباس پہنے ہوئے تھے، اور آپ ﷺ کا انداز خاکساری اور مسکینی اور عاجزی کا تھا۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا صلوٰۃ استسقا قحط کی عمومی اور اجتماعی مصیبت کے دفیعہ کے لئے اجتماعی نماز اور دعا ہے۔ مندرجہ بالا حدیثوں سے اس نماز کے بارے میں چند باتیں معلوم ہوئیں۔ اول ...... یہ کہ یہ نماز آبادی اور بستی سے باہر صحرا اور جنگل میں براہ راست زمین پر ہونی چاہئے، بارش طلبی کے لئے صحرا اور جنگل ہی نسبتاً زیادہ موزوں جگہ ہے اور اس میں پانی بے مائگی کا اظہار بھی زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے ..... یہ جمعہ یا عید کی نماز کی طرح اس نماز کے لئے نہانے دھونے اور اچھے کپڑے پہننے کا اہتمام نہ کیا جائے بلکہ اس کے برعکس بالکل معمولی اور کم حیثیت لباس ہو، مسکینوں اور فقیروں کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضری ہو، سائل کے لئے فقیرانہ صورت اور پھٹے حال مسکینوں کی سی حالت ہی زیادہ مناسب ہے۔ تیسرے ...... یہ کہ دعا بہت ابتہال اور الحاح کے ساتھ کی جائے، اور اس غرض سے ہاتھ آسمان کی طرف زیادہ اونچے اٹھائے جائیں۔ پہلی دونوں حدیثوں میں " تحویل رداء " کا بھی ذکر ہے یعنی یہ کہ آپ ﷺ نے قبلہ رو ہر کر اپنی چادر مبارک پلٹ کر اوڑھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اے اللہ! جس طرح میں نے اس چادر کو الٹ دیا اسی طرح تو بارش نازل فرما کر صورت حال بالکل پلٹ دے، گویا ہاتھ اٹھانے کی طرح یہ عمل بھی دعا ہی کا ایک جز تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی پہلی حدیث میں گزرا کہ جس وقت آپ ﷺ نے نماز استسقا پڑھی اسی وقت ایک بدلی اٹھی اور بھرپور بارش ہوئی۔ دوسرے بعض صحابہ کرامؓ کی روایت میں بھی اس کا ذکر ہے۔ الحمد للہ یہ امت کا بھی عام تجربہ ہے۔ اس عاجز و عاصی کو بھی اپنی عمر میں تین دفعہ نماز استسقاپڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ پہلی دفعہ اپنے بالکل بچپن میں اپنے اصل وطن سنبھل میں، دوسری دفعہ اب سے قریبا پندرہ سال پہلے لکھنو میں اور تیسری دفعہ ۱۹۵۱ میں مدینہ طیبہ میں اور یہ تینوں دفعہ کی نماز کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے بارش نازل فرمائی۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث میں ہے کہ: جب نماز اور دعا کے نتیجہ میں بارش ہوئی اور بھرپور ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: أَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، وَأَنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور میں اس کا بندہ اور رسول ہوں۔ یہ کمال عبدیت ہے کہ آپ ﷺ نے نماز اور دعا کے نتیجہ میں جب معجزانہ طور پر بارش نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے اس حقیقت کا اعتراف و اعلان ضروری سمجھا کہ یہ جو کچھ ہوا اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہوا لہٰذا وہی حمد و شکر کا مستحق ہے اور میں تو بس اس اللہ کا ایک بندہ اور پیغامبر ہوں۔ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى سيدنا مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ.
Top