معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 757
عَنْ عَائِشَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ : شَكَا النَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُحُوطَ الْمَطَرِ ، فَأَمَرَ بِمِنْبَرٍ ، فَوُضِعَ لَهُ فِي الْمُصَلَّى ، وَوَعَدَ النَّاسَ يَوْمًا يَخْرُجُونَ فِيهِ ، قَالَتْ عَائِشَةُ : فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، حِينَ بَدَا حَاجِبُ الشَّمْسِ ، فَقَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ ، فَكَبَّرَ وَحَمِدَ اللَّهَ ، ثُمَّ قَالَ : « إِنَّكُمْ شَكَوْتُمْ جَدْبَ دِيَارِكُمْ ، وَاسْتَخَارَ الْمَطْرِ عَنْ إِبَّانِ زَمَانِهِ عَنْكُمْ ، وَقَدْ أَمَرَكُمُ اللَّهُ أَنْ تَدْعُوهُ ، وَوَعَدَكُمْ أَنْ يَسْتَجِيبَ لَكُمْ » ، ثُمَّ قَالَ : « الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ ، اللَّهُمَّ أَنْتَ اللَّهُ ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْغَنِيُّ وَنَحْنُ الْفُقَرَاءُ ، أَنْزِلْ عَلَيْنَا الْغَيْثَ ، وَاجْعَلْ مَا أَنْزَلْتَ لَنَا قُوَّةً وَبَلَاغًا إِلَى حِينٍ » ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ، فَلَمْ يَتْرُكِ الرَّفْعِ حَتَّى بَدَا بَيَاضُ إِبِطَيْهِ ، ثُمَّ حَوَّلَ إِلَى النَّاسِ ظَهْرَهُ ، وَقَلَّبَ ، أَوْ حَوَّلَ رِدَاءَهُ ، وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ وَنَزَلَ ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ، فَأَنْشَأَ اللَّهُ سَحَابَةً فَرَعَدَتْ وَبَرِقَتْ ، ثُمَّ أَمْطَرَتْ بِإِذْنِ اللَّهِ ، فَلَمْ يَأْتِ مَسْجِدَهُ حَتَّى سَالَتِ السُّيُولُ ، فَلَمَّا رَأَى سُرْعَتَهُمْ إِلَى الْكِنِّ ضَحِكَ ، حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ ، فَقَالَ : « أَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، وَأَنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ » (رواه ابوداؤد)
نماز استسقا
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ خدمت میں حاضر ہو کر بارش نہ ہونے اور سوکھا پڑ جانے کی تکلیف بیان کی، آپ ﷺ (مدینہ کی آبادی سے باہر) اس جگہ جہاں عیدین کی نماز پڑھی جاتی تھی نماز استسقا پڑھنے کا فیصہ فرمایا، اور لوگوں کو ایک دن متعین کر کے بتلایا کہ کہ اس دن سب لوگ آپ ﷺ کے ساتھ چل کر نماز استسقا پڑھیں، اور حکم یا کہ اور حکم فرمایا کہ آپ ﷺ کا منبر اس دن وہاں لے جا کر رکھا جائے، چنانچہ منبر وہاں پہنچا دیا گیا۔ آگے حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ جب وہ دن آیا تو رسول اللہ ﷺ علی الصبح آفتاب طلوع ہوتے ہی وہاں تشریف لے گئے، آپ ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے، پھر اللہ کی کبریائی اور حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا: تم لوگوں نے اپنے علاقہ میں وقت پر بارش نہ ہونے اور سوکھا پڑ جانے کی شکایت کی ہے، اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنی حاجات میں تم اس سے دعا کرو اور اس کا وعدہ ہے کہ وہ ضرور قبول فرمائے گا "، اس کے بعد آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ، اللَّهُمَّ أَنْتَ اللَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْغَنِيُّ وَنَحْنُ الْفُقَرَاءُ، أَنْزِلْ عَلَيْنَا الْغَيْثَ، وَاجْعَلْ مَا أَنْزَلْتَ لَنَا قُوَّةً وَبَلَاغًا إِلَى حِينٍ ساری حم و ستائش اللہ رب العالمین کے لیے ہیں وہ نہایت رحمت والا اور بڑا مہربان ہے یوم جزا کا مالک و فرمانروا ہے، اللہ کے سوا کوئی الہ و معبود نہیں، اس کی شان یہ ہے کہ جو چاہے کر ڈالے، خدا وند تو ہی اللہ ہے، ہے، تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں، تو غنی ہے اور ہم سب تیرے محتاج بندے ہیں، ہم پر باش نازل فرما اور جو بارش تو بھیجے اس کو ہمارے لیے تقویت کا ذریعہ اور ایک مدت تک کفایت کا ذریعہ بنا۔ پھر آپ ﷺ نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے (غالبا مطلب یہ ہے کہ اس دعا میں آپ ﷺ نے ہاتھ جتنے اٹھائے ہوئے تھے اس سے اور اوپر اٹھائے) اور بہت دیر تک اسی طرح ہاتھ اٹھائے دعا کرتے رہے اور ہاتھ اتنے اوپر اٹھائے کہ (باوجود یکہ آپ ﷺ چادر مبارک اوڑھے ہوئے تھے لیکن) آپ ﷺ کی بغل کے اندرونی حصے کی سپیدی بھی نظر آنے لگی، پھر آپ ﷺ نے اپنا رخ قبلہ کی طرف کیا اور پشت لوگوں کی طرف کر لی ہاتھ اور جو چادر آپ ﷺ اوڑھے ہوئے تھے اس پر آپ ﷺ نے پلٹا اور دعا میں میں آپ ﷺ کے ہاتھ اب تک اٹھے ہوئ ے رہے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنا رخ لوگوں کی طرف کر لیا اور منبر سے نیچےت آ کر دو رکعت نماز پڑھائی، اللہ کے حکم اسی وقت ایک بدلی اٹھی، جس میں گرج اور چمک بھی تھی، پھر وہ اللہ کے حکم سے خوب برسی (اور ایسی بھرپور بارش ہوئی کہ ابھی آپ ﷺ اپنی مسجد تک واپس نہیں پہنچے تھے کہ پانی سے راستے اور نالے بھر کر بہنے لگے، پھر جب آپ ﷺ نے یہ منظر دیکھا کہ لوگ (جو قحط اور سوکھا کی شکایت کر رہے تھے) بارش سے پناہ لینے کے لئے سائبان یا چھپر کی طرف دوڑ رہے ہیں تو آپ ﷺ کو ہنسی آ گئی یہاں تک کہ آپ ﷺ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے اور آپ ﷺ نے فرمایا: میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کو ہر چیز پر قدرت ہے اور میں اس کا بندہ اور رسول (ﷺ) ہوں "۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
بارش عام انسانوں کی بلکہ اکثر حیوانات کی بھی ان کی ضروریات میں سے ہے جن پر زندگی کا گویا انحصار ہے، اس لیے کسی علاقہ میں قحط اور سوکھا پڑ جانا وہاں کی عمومی مصیبت بلکہ ایک گونہ عذاب عما ہے رسول اللہ ﷺ نے جس طرح شخصی اور انفرادی حاجتوں اور پریشانیوں کے لیے وہ " صلوٰۃ حاجت " تعلیم فرمائی جس کا بیان پچھلے صفحات میں اپنے موقع پر گزر چکا ہے۔ اسی طرح اس عمومی مصیبت اور پریشانی کی دفیعہ کے لیے بھی آپ ﷺ نے ایک اجتماعی نماز اور دعا کی تعلیم فرمائی جس کی منظم اور مکمل شکل " صلوٰۃ استسقا " ہے۔ استسقا کے لغوی معنی ہی پانی مانگنے اور سیرابی طلب کرنے کے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک دفعہ قحط پڑا تو آپ ﷺ نے صلوٰۃ استسقا پڑھی اور اللہ کے حکم سے اسی وقت بارش ہوئی۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی مندرجہ ذٰل حدیث میں اس واقعہ کی تفصیل پڑھئے۔
Top