معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 756
عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ : خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ ، فَقَامَ ، فَأَطَالَ القِيَامَ ، ثُمَّ رَكَعَ ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ، ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ القِيَامَ وَهُوَ دُونَ القِيَامِ الأَوَّلِ ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ ، ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ ، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُخْرَى مِثْلَ مَا فَعَلَ فِي الأُولَى ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ انْجَلَتِ الشَّمْسُ ، فَخَطَبَ النَّاسَ ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ، ثُمَّ قَالَ : « إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ، لاَ يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ ، فَادْعُوا اللَّهَ ، وَكَبِّرُوا وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا » ثُمَّ قَالَ : « يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ مَا مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ أَنْ يَزْنِيَ عَبْدُهُ أَوْ تَزْنِيَ أَمَتُهُ ، يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلبَكَيْتُمْ كَثِيرًا اَلَا هَلْ بَلَّغْتُ » (رواه البخارى ومسلم)
صلوٰۃ کسوف اور صلوٰۃ استسقا
حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں آفتاب کو گہن لگا تو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ اس نماز میں آپ ﷺ بہت طویل قیام فرمایا، پھر آپ ﷺ رکوع میں گئے اور بہت طویل رکوع کیا۔ پھر آپ ﷺ کھڑے ہو گئے اور پھر بہت طویل قیام فرمایا، لیکن قیام پہلے قیام کی بنسبت کچھ کم طویل تھا، اس کے بعد پھر آپ ﷺ رکوع میں گئے اور آپ ﷺ نے طویل رکوع کیا، لیکن پہلے رکوع کی بہ نسبت یہ رکوع کچھ کم طویل تھا، پھر آپ ﷺ سجدہ میں گئے اور سجدہ بھی آپ ﷺ نے بہت طویل کیا پھر آپ ﷺ نے دوسری رکعت میں بھی بالکل اسی طرح کیا، جس طرح پہلی رکعت میں کیا ھتا۔ اس کے بعد (قاعدے کے مطابق قعدہ اخیرہ اور سلام کے بعد) آپ ﷺ نے نماز ختم کر دی اور آفتاب گہن سے نکل گیا۔ اور (معمول کے مطابق) روشن ہو گیا، پھر آپ ﷺ نے خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد اس میں فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی قدرت و صنعت کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت و حیات سے ان کو گہن نہیں لگتا۔ (بلکہ زمین و آسمان کی دوسری مخلوقات کی طرح ان پر بھی اللہ کا حکم چلتا ہے اور ان کی روشنی اور تاریکی اسی مالک الملک اور قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے) لہذا جب تم ان کو گہن لگتے دیکھو تو اللہ سے دعا کرو اور اس کی کبریائی بیان کرو اور اس کے حضور میں نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا اے امت محمد (ﷺ)! کسی غلام یا باندی کی بدکاری سے کسی کو اتنی ناگواری نہیں ہوتی جتنی ناگواری اللہ تعالیٰ کو اپنے کسی بندے یا بندی کی بدکاری سے ہوتی ہے (اس لیے اس کے قہر و جلال سے ڈرو اور ہر قسم کی بدکاری اور معصیت سے بچو) اے امت محمد (ﷺ)! قسم ہے اللہ کی اگر (اللہ کے قہر و جلال کے بارے میں) تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔

تشریح
نماز کسوف کا واقعہ چونکہ غیر معمولی قسم کا واقعہ تھا اور آپ ﷺ نے یہ نماز بھی غیر معمولی طرح پڑھی اس لئے بہت سے صحابہؓ نے اس کو روایت کیا ہے، یہاں صرف پانچ صحابیوں کی روایتیں نقل کی گئی ہیں کتب حدیث میں بیس سے زیادہ صحابیوں کے مجمل یا مفصل بیانات اس واقعہ کے بارے میں ملتے ہیں۔ امام بخاریؒ نے صحیح بخاری کے کسوف کے متعلق ابواب میں اس واقعہ سے متعلق نو صحابیوں کی حدیثیں روایت کی ہیں، ان سب حدیثوں سے واقعہ کی پوری تفصیلات معلوم ہو جاتی ہیں۔ ایک بات جو ان میں سے اکثر حدیثوں سے مشترک طور پر معلوم ہوتی ہے یہ ہے کہ صحابہؓ کے لئے یہ نماز نئی سی بات تھی اور انہوں نے اس سے پہلے کبھی صلوٰۃ کسوف نہیں پڑھی تھی، اور یہ بات بھی روایات میں صراحۃ موجود ہے کہ یہ کسوف اسی دن ہوا جس دن آپ ﷺ کے شیرخوار صاحبزادہ ابراہیم کا انتقال ہوا تھا، اور محدثین کا اس پر قریب قریب اتفاق ہے کہ ان کا انتقال ۱۰؁ھ میں ہوا یعنی رسول اللہ ﷺ کی وفات سے چند ہی مہینے پہلے، اس طرح یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسوف کی نماز بس ایک ہی دفعہ پڑھی ہے جس کا ان احادیث میں ذکر ہے۔ چاند گرہن کے وقت بھی نماز پڑھنے کا حکم ان احادیث میں صاف موجود ہے لیکن کسی صحیح حدیث سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی چاند گرہن کے وقت بھی نماز پڑھی، غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نماز کا حکم آپ ﷺ کو اس کسوف ہی کے موقع پر ملا، اور اس کے بعد جو چند مہینے آپ ﷺ اس دنیا میں رونق افروز رہے ان میں چاند گرہن کی نوبت ہی نہیں آئی۔ واللہ اعلم۔ یہ نماز آپ ﷺ نے بہت غیر معمولی کیفیات کے ساتھ پڑھی (حالانکہ جماعت کے ساتھ اتنی طویل نماز پڑھنا آپ ﷺ کی عادت مبارکہ نہ تھی بلکہ آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے)۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ میرا اندازہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس نماز کی ایک رکعت میں سورہ بقرہ پڑھی، اور دوسری میں آل عمران۔ اور حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ بعض لوگ اس نماز میں کھڑے نہیں رہ سکے بلکہ گر پڑے۔ اور بعض روایات میں ہے کہ اس نماز میں بہت سے لوگ بے ہوش ہو گئے اور ان کےک سروں پر پانی ڈالا گیا۔ اسی طرح کی ایک نئی بات اس نماز میں یہ تھی کہ آپ ﷺ نے قیام کے دوران ہاتھ اٹھا کے اللہ کی تسبیح و تہلیل اور تحمید و تکبیر کے ساتھ دیر تک دیا بھی کی۔ اسی طرح ایک دوسری نئی اور عجیب بات یہ بھی ہوئی کہ آپ ﷺ قیام کے دوران اللہ تعالیٰ کے حضور میں جھک گئے اور دیر تک رکوع میں رہنے کے بعد پھر کھڑے ہو کر آپ ﷺ نے قرأت کی اور اس کے بعد رکوع اور سجدہ کیا اور بعض روایات کے مطابق قیام کے دوران میں صرف ایک دفعہ نہیں بلکہ آپ ﷺ کئی دفعہ اسی طرح رکوع میں گئے۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ اس نماز کے دوران ایک دفعہ پیچھے کی جانب ہٹے اور پھر آگے بڑھے، اور آپ ﷺ نے ایک دفعہ ہاتھ آگے بڑھایا جس طرح کسی چیز کو لینے اور پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہیں اور پھر خطبہ میں آپ ﷺ نے بتایا کہ اس وقت آپ ﷺ کے سامنے عالم غیب کے بہت سے حقائق منکشف کیے گئے آپ ﷺ نے جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے دیکھا، اور دوزخ میں عذاب کے نہایت ہیبت ناک اور کرزہ خیز مناظر دیکھے اور وہ دیکھا جو کبھی پہلے نہیں دیکھا تھا۔ یہ بات بہت قریب قیاس ہے کہ اس نماز میں جو غیر معمولی باتیں آپ ﷺ سے ظہور میں آئیں۔ مثلاً آپ ﷺ کا دوران نماز ہاتھ اٹھا کر دیر تک دعا کرنا، دوران قیام و قرأت میں بار بار اللہ کے حضور میں جھک جانا کبھی پیچھے ہٹنا کبھی آگے بڑھنا اور کبھی اپنا ہاتھ آگے بڑھانا، یہ سب ان غیبی مشاہدات کی وجہ سے ہوا۔ فائدہ ....... ٹھیک آپ ﷺ کے صاحبزادے کی وفات کے دن سورج گہن لگنا اور آپ ﷺ کا خطبہ میں پورے روز و قوت کے ساتھ یہ اعلان فرمانا کہ اس گہن کا میرے گھر کے اس حادثہ سے کوئی تعلق نہیں اور یسا سمجھنا غلط فہمی اور توہم پرستی ہے، رسول اللہ ﷺ کی صداقت اور بے لوثی کی ایسی دلیل ہے جو بڑے سے بڑے منکر کو متاثر کرتی ہے بشرطیکہ اس کا دل بالکل ہی مردہ نہ ہو۔
Top