معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 744
عَنْ جَابِرٍ ذَبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الذَّبْحِ كَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مُوجَأَيْنِ ، فَلَمَّا وَجَّهَهُمَا قَالَ : « إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ ، وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ ، اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ ، وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ بِاسْمِ اللَّهِ ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ » ثُمَّ ذَبَحَ. (رواه احمد وابوداؤد وابن ماجه والدارمى) وفى روايته لاحمد وابى داؤد والترمذى ذَبَحَ بِيَدِهِ وَقَالَ بِسْمِ اللهِ ، اللهُ أَكْبَرُ هَذَا عَنِّىْ وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِىْ.
قربانی کا طریقہ
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ قربانی کے دن یعنی عید قربان کے دن رسول اللہ ﷺ نے سیاہی و سفیدی مائل سینگوں والے دو خصی مینڈھوں کی قربانی کی۔ جب آپ ﷺ نے ان کا رخ صحیح قبلہ کی طرف کر لیا تو یہ دعا پڑھی " إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي ..... اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ، وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ " (میں نے اپنا رخ اس اللہ کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیاہے، طریقے پر ابراہیم کے ہر طرف سے یکسو ہو کر اور میں شرک والوں میں سے نہیں ہوں، میری نماز و عبادت اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے اس کا کوئی شریک ساتھی نہیں، اور مجھے اسی کا حکم ہے، اور میں حکم ماننے والوں میں ہوں، اے اللہ! یہ قربانی تیری ہی طرف سے اور تیری ہی توفیق سے ہے اور تیرے ہی واسطے ہے، تیرے بندے محمد کی اور اس کی امت کی جانب سے بسم اللہ واللہ اکبر) یہ دعا پڑھ کر آپ ﷺ نے مینڈھے پر چھری چلائی اور اس کو ذبح کیا۔ اور مسند احمد و سنن ابی داؤد اور جامع ترمذی کی اسی حدیث کی ایک دوسری روایت میں آخری حصہ اس طرح ہے کہ آپ نے " اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ " کہنے کے بعد اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور زبان سے کہا: " بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ " (اے اللہ! یہ میری جانب سے اور میرے ان امتیوں کی جانب سے جنہوں نے قربانی نہ کی ہو)۔

تشریح
قربانی کے وقت رسول اللہ ﷺ کا اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کرنا کہ: " میری جانب سے اور میرے ان امتیوں کی جانب سے جنہوں نے قربانی نہیں کی " ظاہر ہے کہ یہ امت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی انتہائی شفقت و رأفت ہے۔ لیکن ملحوظ رہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے ساری امت کی طرف سے یا قربانی نہ کرنے والے امتیوں کی طرف سے قربانی کر دی اور سب کی طرف سے ادا ہو گئی بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اے اللہ! اس کے ثواب میں میرے ساتھ میرے امتیوں کو بھی شریک فرما! ثواب میں شرکت اور چیز ہے اور قربانی کا ادا ہو جانا دوسری چیز ہے۔
Top