معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 737
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : « فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى العَبْدِ وَالحُرِّ ، وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى ، وَالصَّغِيرِ وَالكَبِيرِ مِنَ المُسْلِمِينَ ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلاَةِ » (رواه البخارى ومسلم)
صدقہ فطر ۔ اس کا وقت اور اس کی حکمت
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں میں سے ہر غلام اور آزاد پر اور ہر مرد و عورت پر اور ہر دچھوٹے اور بڑے پر صدقہ فطر لازم کیا ہے، ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو۔ اور حکم دیا ہے کہ یہ صدقہ فطر نماز عید کے لئے جانے سے پہلے ادا کر دیا جائے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
زکوٰۃ کی طرح صدقہ فطر بھی اغنیاء (دولتمندوں) ہی پر واجب ہے، چونکہ یہ بات مخاطببین خود سمجھ سکتے تھے اس لئے اس حدیث میں اس کی وضاحت نہیں کی گئی، رہی بات یہ کہ اغنیاء کون ہیں اور اسلام میں دولت مندی کا معیار کیا ہے؟ اس کی وضاحت اور تفصیل ان شاء اللہ زکوٰۃ کے بیان میں کی جا سکے گی۔ اس حدیث میں ہر نفر کی طرف سے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہی دو چیزیں اس زمانہ میں مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں عام طور سے بطور غذا کے استعمال ہوتی تھیں اس لئے اس حدیث میں انہی دو کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اس زمانہ میں ایک چھوٹے گھرانے کی غذا کے لئے ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جو کافی ہوتے تھے، اس حساب سے ہر دولتمند گھرانے کے ہر چھوٹے بڑے فرد کی جانب سے عید الفطر کے دن اتنا صدقہ ادا کرنا ضروری قرار دیا گیا، جس سے ایک معمولی گھرانے کے ایک دن کے کھانے کا خرچ چل سکے۔ ہندوستان کے اکثر علماء کی تحقیق کے مطابق رائج الوقت سیر کے حساب سے ایک صاع قریبا ساڑھے تین سیر کا ہوتا ہے۔
Top