معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 707
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ لَسَاعَةً لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللهَ فِيْهَا خَيْرًا ، إِلَّا أَعْطَاهُ اللهُ إِيَّاهُ. (رواه البخارى ومسلم)
جمعہ کے دن کا خصوصی وظیفہ درود شریف
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جمعہ کے دن میں ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ اگر کسی مسلمان بندے کو حسن اتفاق سے خاص اس گھڑی میں خیر اور بھلائی کی کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے مانگنے کی توفیق مل جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو عطا ہی فرما دیتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس طرح پورے سال میں رحمت و قبولیت کی ایک خاص رات (شب قدر) رکھی گئی ہے جس میں کسی بندے کو اگر توبہ و استغفار اور دعا نصیب ہو جائے تو اس کی بڑی خوش نصیبی ہے اور اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی خاص توقع ہے۔ اسی طرح ہر ہفتے میں بھی جمعہ کے دن رحمت و قبولیت کی ایک خاص گھڑی ہوتی ہے اگر اس میں بندے کو اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا اور مانگنا نصیب ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے کرم سے قبولیت ہی کی امید ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے حضرت عبداللہ بن سلامؓ اور کعب احبارؓ دونوں نے نقل کیا ہے کہ: جمعہ کے دن کی اس ساعت اجابت کا ذکر تورات میں بھی ہے۔ اور معلوم ہے کہ یہ دونوں حضرات تورات اور کتب سابقہ کے بہت بڑے عالم تھے۔ جمعہ کے دن کی اس ساعت اجابت کے وقت کی تعیین و تخصیص میں شارحین حدیث نے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں، ان میں سے دو ایسے ہیں جن کا صراحۃ یا اشارۃ بعض احادیث میں بھی ذکر ہے، صرف وہی یہاں ذکر کئے جاتے ہیں: ۱۔ ایک یہ کہ جس وقت امام خطبہ کے لئےممبر پر جائے اس وقت سے لیکر نماز کے ختم ہونے تک جو وقت ہوتا ہے، پس یہی وہ ساعت اجابت ہے۔ اس کا حاصل یہ ہوا کہ خطبہ اور نماز کا وقت ہی قبولیت کی دعا کا خاص وقت ہے۔ ۲۔ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ ساعت عصر کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک کا وقفہ ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے " حجۃ اللہ البالغہ " میں یہ دونوں قول ذکر فرما کر اپنا خیال یہ ظاہر فرمایا ہے کہ: " ان دونوں باتوں کا مقصد بھی حتمی تعیین نہیں ہے، بلکہ منشاء صرف یہ ہے کہ خطبہ اور نماز کا وقت چونکہ بندگان خدا کی توجہ الی اللہ اور عبادت و دعا کا خاص وقت ہے اس لئیے اس کی امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ساعت اسی وقت میں ہو۔ اور اسی طرح چونکہ عصر کے بعد سے غروب تک کا وقت نزول قضا کا وقت ہے اور پورے دن کا گویا نچوڑ ہے اس لئے اس وقت بھی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ساعت غالبا اس مبارک وقفہ میں ہو "۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ: " جمعہ کے ند کی اس خاص ساعت کو اسی طرح اور اسی مصلحبت سے مبہم رکھا گیا ہے جس طرح اور جس مصلحت سے شب قدر کو مبہم رکھا گیا ہے، پھر جس طرح رمضان مبارک کے عشرہ اخیر کی طاق راتوں اور خاص کر ستائیسویں شب کی طرف شب قدر کے بارے میں کچھ اشارات بعض حدیثوں میں کئے گئے ہیں اسی طرح جمعہ کے دن کی اس ساعت اجابت کے لیے نماز و خطبہ کے وقت اور عصر سے مغرب تک کے وقفہ کے لیے بھی احادیث میں اشارات کئے گئے ہیں تا کہ الہ کے بندے کم از کم ان دو وقتوں میں توجہ الی اللہ اور دعا کا خصوصیت سے اہتمام کریں۔ " اس ناچیز نے اپنے بعض اکابر کو دیکھا ہے کہ وہ جمعہ کے دن ان دونوں وقتوں میں لوگوں سے ملنا جلنا اور بات چیت کرنا پسند نہیں کرتے، بلکہ نماز یا ذکر و دعا اور توجہ الی اللہ میں ہی مصروف رہنا چاہتے ہیں۔
Top