معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 702
عَنْ جَابِرِ قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الأُمُورِ ، كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ القُرْآنِ ، يَقُولُ : " إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالأَمْرِ ، فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الفَرِيضَةِ ، ثُمَّ لِيَقُلْ : اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ العَظِيمِ ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ ، وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الغُيُوبِ ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي (أَوْ قَالَ فِىْ عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ) فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ، ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي (أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ) فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ ، وَاقْدُرْ لِي الخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ، ثُمَّ أَرْضِنِي " قَالَ : « وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ » (رواه البخارى ومسلم)
صلوٰۃ استخارہ
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو اپنے معاملات میں استخارہ کرنے کا طریقہ اسی اہتمام سے سکھاتے تھے جس اہتمام سے قرآن کی سورتوں کی تعلیم فرماتے تھے۔ آپ ﷺ ہم کو بتاتے تھے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے (اور اس کے انجام کے بارے میں فکر مند ہو تو اس کو اس طرح استخارہ کرنا چاہئے) پہلے وہ دو رکعت نفل پڑھے اس کے بعد اللہ کے حضور میں اس طرح عرض کرے: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ ..... (اے میرے اللہ! میں تجھ سے تیری صفت علم کے وسیلے سے خیر اور بھلائی کی رہنمائی چاہتا ہوں اور تیری صفت قدرت کے ذریعے تجھ سے قدرت کا طالب ہوں اور تیرے عظیم فضل کی بھیگ مانگتا ہوں کیوں کہ تو قادر مطلق ہے اور میں بالکل عاجز ہوں۔ اور تو علیم کل ہے اور میں حقائق سے بالکل ناواقف ہوں اور تو سارے غیبوں سے باخبر ہے۔ پس اے میرے اللہ! اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے بہتر ہو، میرے دین، میری دنیا اور میری آخرت کے لحاظ سے تو اس کو میرے لیے مقدر کر دے اور آسان بھی فرما دے اور پھر اس میں میرے لیے برکت بھی دے اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے برا ہے (اور اس کا نتیجہ خراب نکلنے والا ہے)، میرے دین، میری دنیا اور میری آخرت کے لحاظ سے تو اس کام کو مجھ سے الگ رکھ اور مجھے اس سے روک دے اور میرے لیے خیر و بھلائی کو مقدر فرما دے، وہ جہاں اور جس کام میں ہو پھر مجھے اس خیر والے کام کے ساتھ راضی اور مطمئن کر دے "۔ راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ: جس کام کے بارے میں استخارہ کرنے کی ضرورت ہو استخؒارہ کی دعا کرتے ہوئے صراحۃ اس کا نام لے۔ (صحیح بخاری)

تشریح
بندوں کا علم ناقص ہے بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بندہ ایک کام کرنا چاہتا ہے اور اس کا انجام اس کے حق میں اچھا نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے " صلوٰۃ استخارہ " تعلیم فرمائی اور بتایا کہ جب کوئی خاص اور اہم کام درپیش ہو تو دو رکعت نماز پڑھ کے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی اور توفیق خیر کی دعا کر لیا کرو۔ تشریح ..... جیسا کہ اس دعا کے مضمون سے ظاہر ہے استخارہ کی حقیقت اور اس کی روح یہ ہے کہ بندہ اپنی عاجزی اور بےعلمی کا احساس و اعتراف کرتے ہوئے اپنے علیم کل اور قادر مطلق مالک سے رہنمائی اور مدد چاہتا ہے اور اپنے معاملہ کو اس کے حوالے کر دیتا ہے کہ جو اس کے نزدیک بہتر ہو بس وہی کر دے، اس طرح گویا وہ اپنے مقصد کو اللہ کی مرضی میں فنا کر دیتا ہے، اور جب اس کی یہ دعا دل سے ہو جیسے کہ ہونا چاہیے تو ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے کی رہنمائی اور مدد نہ فرمائے۔ حدیث میں اس کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی بندے کو کس طرح ھاصل ہو گی، لیکن اللہ تعالیٰ کے بندوں کا تجربہ ہے کہ یہ رہنمائی بسا اوقات خواب وغیرہ میں کسی غیبی اشارہ کے ذریعہ بھی ہوتی ہے، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ سے آپ اس کام کے کرنے کا جذبہ اور داعیہ دل میں بڑھ جاتا ہے، یا اس کے برعکس اس کی طرف سے دل بالکل ہٹ جاتا ہے، ایسی صورت میں ان دونوں کیفیتوں کو منجانب اللہ اور دعا کا نتیجہ سمجھنا چاہیے، اور اگر استخارہ کے بعد تذبذب کی کیفیت رہے تو استخارہ بار بار کیا جائے اور جب تک کسی طرف رجحان نہ ہو جائے اقدام نہ کیا جائے۔ بہر حال یہ صلوٰۃ استغفار، صلوٰۃ حاجت اور صلوٰۃ استخارہ عظیم نعمتیں ہیں جو اس امت کو رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے ملی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔
Top