معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 700
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ إِلَى اللَّهِ ، أَوْ إِلَى أَحَدٍ مِنْ بنى آدم ، فَلْيَتَوَضَّأْ فَلْيُحْسِنِ الْوُضُوْءَ ثُمَّ لِيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ ، ثُمَّ لِيُثْنِ عَلَى اللهِ عَزَّ تَعَالَى ، وَلِيُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ لِيَقُلْ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ ، وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ ، لَا تَدَعَ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ ، وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ ، وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ. (رواه الترمذى وابن ماجه)
صلوٰۃ الحاجۃ
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو کوئی حاجت اور ضرورت ہو اللہ تعالیٰ سے متعلق یا کسی آدمی سے متعلق (یعنی خواہ وہ حاجت ایسی ہو جس کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ ہی سے ہو کسی بندے سے اس کا واسطہ ہی نہ ہو، یا ایسا معاملہ ہو کہ بظاہر اس کا تعلق کسی بندے سے ہو، بہر صورت) اس کو چاہئے کہ وہ وضو کرے اور خوب اچھا وضو کرے، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی کچھ حمد و ثنا کرے اور اس کے نبی (علیہ السلام) پر درود پڑھے، پھر اللہ کے حضور میں اس طرح عرض کرے: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، الْحَلِيمُ، الْكَرِيمُ.... (اللہ کے سوا کوئی مالک و معبود نہیں، وہ بڑے حلم والا اور بڑا کریم ہے، پاک اور مقدس ہے وہ اللہ جو عرش عظیم کا بھی رب اور مالک ہے، ساری حمد و شتائش اس اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے، اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ان اعمال اور ان اخلاق و احوال کا جو تیری رحمت کا موجب اور وسیلہ اور تیری مغفرت اور بخشش کا پکا ذریعہ بنیں، اور تجھ سے طالب ہوں ہر نیکی سے فائدہ اٹھانے اور حصہ لینے کا اور ہر گناہ اور معصیت سے سلامتی اور حفاظت کا۔ خداوندا! میرے سارے ہی گناہ بخش دے، اور میری ہر فکر اور پریشانی دور کر دے اور میری ہر حاجت جس سے تو راضی ہو اس کو پورا فرما دے۔ اے ارحم الراحمین! سب مہربانوں سے بڑے مہربان!!!۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
یہ ایک حقیقت ہے کہ جس میں کسی مومن کے لیے کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ مخلوقات کی ساری حاجتیں اور ضرورتیں اللہ کے اور صرف اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں، اور بظاہر جو کام بندوں کے ہاتھوں سے ہوتے دکھائی دیتے ہیں دراصل وہ بھی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں اور اسی کے حکم سے انجام پاتے ہیں۔ اور صلوٰۃ حاجۃ کا جو طریقہ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں تعلیم فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجتیں پوری کرانے کا بہترین اور متعمد ترین طریقہ ہے، اور جن بندوں کو ان ایمانی حقیقتوں پر یقین نصیب ہے، ان کا یہی تجربہ ہے اور انہوں نے " صلوٰۃ حاجت " کو خزائن الہیہ کی کنجی پایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں ان حاجتوں کے لیے بھی صلوٰۃ حاجت تعلیم فرمائی ہے جن کا تعلق بظاہر کسی بندے سے ہو۔ اس کا ایک خاص فائدہ یہ بھی ہے کہ جب بندہ اپنی ایسی حاجات کے لیے بھی صلوٰۃ حاجت پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعا کرے گا تو اس کا یہ عقیدہ اور یقین اور زیادہ مستحکم ہو جائے گا کہ کام کرنے اور بنانے والا دراصل وہ بندہ نہیں ہے، نہ اس کے کچھ اختیار میں ہے، بلکہ سب کچھ اللہ تعالیی ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہ بندہ اللہ تعالیٰ کا صرف آلہ کار ہے، اس کے بعد جب وہ کسی بندے کے ہاتھ سے کام ہوتا ہوا بھی دیکھے گا تو اس کے توحیدی عقیدے میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔
Top