معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 699
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : « مَا مِنْ رَجُلٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا ثُمَّ يَقُومُ فَيَتَطَهَّرُ ، ثُمَّ يُصَلِّي ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ إِلَّا غَفَرَ لَهُ » ، ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ {وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ } (رواه الترمذى)
صلوٰۃ استغفار
حضرت علی مرتضیٰ ؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے ابو بکرؓ نے بیان فرمایا (جو بلا شبہ صادق و صدیق ہیں) کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے: جس شخص سے کوئی گناہ ہو جائے پر وہ اٹھ کر وضو کرے، پھر نماز پڑھے، پھر اللہ سے مغفرت اور معافی طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرما ہی دیتا ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی: وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ .... الآية (جامع ترمذی)

تشریح
ٓفرض نمازوں سے پہلے یا بعد میں پڑھے جانے والے نوافل اور اسی طرح تہجد اور اشراق و چاشت یہ سب وہ ہیں جن کے اوقات متعین ہیں، لیکن کچھ نوافل وہ ہیں جن کا تعلق خاص اوقات سے نہیں بلکہ خاص حالات سے ہے۔ جیسے: دوگانہ وضو (جس کو عرف عام میں تحیۃ الوضو کہتے ہیں) یا تحیۃ المسجد، اسی طرح صلوۃ حاجت، صلوۃ توبہ اور نماز استخارہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی کا بھی کوئی وقت معین نہیں ہے، بلکہ جس وقت بھی وہ حالات یا ضروریات پیش آئیں جن سے ان نوافل کا تعلق ہے، یہ اسی وقت پڑھے جاتے ہیں۔ ان میں سے تحیۃ الوضو سے متعلق حدیثیں وضو کے بیان میں ذکر کی جا چکی ہیں۔ اسی طرح تحیۃ المسجد سے متعلق احادیث بھی " مسجد کی اہمیت و فضیلت " کے بیان میں مذکور ہو چکی ہیں۔ ان کے علاوہ اس نوع کے باقی نوافل سے متعلق حدیثیں ذیل میں پڑھئے۔ تشریح ..... یہ آیت جو رسول اللہ ﷺ نے گناہوں کی مغفرت کے سلسلہ میں اس موقع پر تلاوت فرمائی سورہ آل عمران کی ہے، اوپر اللہ کے ان متقی بندوں کا ذکر ہے جن کے لیے جنت خاص طور سے تیار کی گئی ہے۔ اس کے بعد یہ آیت ہے۔ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّـهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّـهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿١٣٥﴾ أُولَـٰئِكَ جَزَاؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚوَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ. (العمران۳: ۱۳۵، ۱۳۶) (اور وہ بندے (جن کا حال یہ ہے کہ) جن ان سے کوئی گندہ گناہ ہو جاتا ہے یا کوئی برا کام کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو جلد ہی انہیں اللہ یاد آ جاتا ہے اور وہ اس سے اپنے گناہوں کی مغفرت اور معارفی کے طالب ہوتے ہیں۔ اور اللہ کے سوا کون ہے گناہوں کا معاف کرنے والا، اور وہ دیدہ و دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے (135) ایسے لوگوں کی جزا بخشش اور معافی ہے ان کے رب کی طرف سے اور بہشتی باغات جن کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، کیا اچھا بدلہ ہے عمل کرنے والوں کا)۔ اس آیت میں ان گنہگار بندوں کے لیے مغفرت اور جنت کی بشارت ہے جنہوں نے معصیت کو عادت اور پیشہ نہیں بنایا ہے، بلکہ ان کا حال یہ ہے کہ جب ان سے کوئی بڑا یا چھوٹا گناہ ہو جاتا ہے تو وہ اس پر نادم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوہ ہو کر اس سے مغفرت اور معافی کے طالب ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور معافی حاصل کرنے کا بہترین اور پیٹنٹ طریقہ یہ ہے کہ بندہ وضو کر کے پہلے دو رکعت نماز پڑھے اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش اور معافی طلب کرے، اگر وہ ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کی بخشش کا فیصلہ فرما ہی دے گا۔
Top