معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 680
عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ : قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ ، فَقِيلَ لَهُ : لِمَ تَصْنَعُ هَذَا وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ، قَالَ : « أَفَلاَ أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا » (رواه البخارى ومسلم)
قیام لیل یا تہجد ۔ اس کی فضیلت اور اہمیت
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس قدر قیام فرمایا (یعنی رات کو نماز تہجد اتنی طویل پڑھی) کہ آپ ﷺ کے قدم مبارک متورم ہو گئے، تو آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جب کہ آپ کی اگلی پچھلی ساری تقصیریں معاف ہو گئی ہیں (اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کا اعلان فرما کے آپ کو اس بارے میں مطمئن بھی کر دیا ہے)؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تو کیا میں (اس کے احسان عظیم کا) زیادہ شکر کرنے والا بندہ نہ بنوں (اور اس شکر گزاری میں اس کی اور زیادہ عبادت نہ کروں)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ ﷺ با آنکہ آپ ﷺ کو ہم گنہگاروں کی طرح عبادت و ریاضت کی زیادہ ضرورت نہ تھی اور باوجود اس کے آپ کا چلنا پھرنا حتیٰ کہ سونا بھی کار ثواب تھا، لیکن پھر بھی آپ راتوں میں اتنی طویل نماز پڑھتے تھے کہ قدم مبارک متورم ہو جاتے تھے۔ اس میں آپ ﷺ کے ہم جیسے راحت طلب نام لیواؤں اور نیابت رسول ﷺ کے مدعیوں کے لیے بڑا سبق ہے۔ عقیدہ عصمت اور رسول اللہ ﷺ کے ذنوب کی مغفرت اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے ذنوب کی مغفرت کا ذکر ہے، اور ذنب کے معنی عام طور سے گناہ کے لیے جاتے ہیں، اس لیے یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ جب عصمت انبیاء اہل حق کا مسلم عقیدہ ہے تو رسول اللہ ﷺ کے ذنوب کی مغفرت کا کیا مطلب ہے؟ اس کے جواب میں جو کچھ کہا گیا ہے اور کہا جاتا ہے اس میں سب سے زیادہ معقول اور دل لگتی بات اس عاجز کے نزدیک یہ ہے کہ آپ ﷺ کے معصوم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ ان برائیوں سے محفوظ ہیں جو معصیات اور منکرات کے قبیلہ سے ہیں اور جو امت کے حق میں بھی گناہ ہیں، لیکن ایسی باتیں ہر نبی سے اور آپ ﷺ سے بھی صادر ہو سکتی ہیں جو اگرچہ معصیت اور گناہ نہ ہوں لیکن خلاف اولیٰ یا آپ کی شان عالی کے لحاظ سے نامباسب ہوں۔ جیسا کہ مثلا شہد کی تحریم کا واقعہ یا عبداللہ بن ام مکتوم سے ایک موقع پر بے اعتنائی برتنے کا واقعہ جن پر سورہ تحریم اور سورہ عبس میں آپ ﷺ کو محبت کے خاص انداز میں تنبیہ فرمائی گئی۔ بہرحال اس قسم کی معمولی لغزشیں حضرات انبیاء علیہم السلام سے بھی سرزد ہو جاتی ہیں اور اگرچہ یہ چیزیں معصیت اور گناہ کی حد میں نہیں آتیں۔ لیکن " قریباں لا بیش بود حیرانی " کے اصول پر یہ حضرات اپنی ان معمولی لغزشوں سے اتنے رنجیدہ اور فکر مند ہوتے تھے کہ ہم عوام اپنے موٹے موٹے گناہوں سے بھی اتنے فکر مند نہیں ہوتے۔ پس قرآن و حدیث میں جہاں کہیں رسول اللہ ﷺ یا کسی بھی پیغمبر کے ذنوب کی مغفرت کا ذکر آتا ہے وہاں اسی قسم کی لغزشوں اور کوتاہیوں کی معافی مراد ہوتی ہے۔ ذنب کے لغوی معنی میں اتنی وسعت ہے کہ اس سے اس قسم کی لغزشیں اور کوتاہیاں بھی مراد ہو سکتی ہیں۔
Top