معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 676
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ يَقُولُ : مَنْ يَدْعُونِي ، فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ ، مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ " (رواه البخارى ومسلم)
قیام لیل یا تہجد ۔ اس کی فضیلت اور اہمیت
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمارا مالک اور رب تبارک وتعالیٰ ہر رات کو جس وقت آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے۔ سماء دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے مانگے، اور میں اس کو عطا کروں کون ہے جو مجھ سے مغفرت اور بخشش چاہے، میں اس کو بخش دوں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
عشاء اور فجر کے درمیان کوئی نماز فرض نہیں کی گئی ہے۔ اگر عشاء اول وقت ہی میں پڑھ لی جائے یا کچھ دیر کر کے بھی پڑھی جائے تو فجر تک بہت بڑا وقت خالی رہ جاتا ہے، حالانکہ یہ وقت اس لحاظ سے نہایت قیمتی ہوتا ہے کہ فضا میں جیسا سکون رات کو سناٹے میں ہوتا ہے ایسا دوسرے کسی وقت میں نہیں ہوتا، اور اگر عشاء کے بعد آدمی کچےھ دیر کے لیے سو جائے اور آدھی رات گزرنے کے بعد کسی وقت اٹھ جائے (جو تہجد کا اصلی وقت ہے) تو پھر اس وقت جیسی یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ نماز نصیب ہو جاتی ہے وہ دوسرے وقت نصیب نہیں ہوتی، علاوہ ازیں اس وقت بستر چھوڑ کے نماز پڑھنا نفس کی ریاضت اور تربیت کا بھی خاص وسیلہ ہے۔ قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا ہے: " إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا (رات کو نماز کے لیے کھڑے ہونا نفس کو بہت زیادہ دبانے والا عمل ہے اور اس وقت (دعا یا قرأت میں) جو زبان سے نکلتا ہے وہ بالکل ٹھیک اور دل کے مطابق یعنی دل سے نکلتا ہے)۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں ایسے بندوں کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے۔ " تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا " اُن کے پہلو (اس وقت میں جو لوگوں کے سونے کا خاص وقت ہے) خواب گاہوں سے الگ رہتے ہیں، وہ اس وقت اپنے پروردگار سے کو اُمید و بیم کے ساتھ دعائیں کرتے ہیں) آگے فرمایا گیا ہے کہ ان بندوں کے اس عمل کا جو انعام اور صلہ جنت میں ملنے والا ہے۔ جس میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا پورا سامان ہے۔ اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (السجدہ) اور قرآن مجید میں ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ کو تہجد کا حکم دینے کے ساتھ آپ کو " مقام محمود " کی امید دلائی گئی ہے۔ فرمایا گیا ہے: " وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا " اور اے نبی (ﷺ) آپ اس قرآن کے ساتھ تہجد پڑھئے (یعنی تہجد میں خوب قران پڑھا کیجئے) یہ حکم آپ کے لئے زائد اور مخصوص ہے، امید رکھنا چاہئے کہ آپ کو آپ کا رب " مقامِ محمود " پر فائز کرے گا۔ " مقام محمود " عالم آخرت میں اور جنت میں بلند ترین مقام ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ " مقام محمود " اور نماز تہجد میں کوئی خاص نسبت اور تعلق ہے، اس لیے جو امتی نماز تہجد سے شغف رکھیں گے ان شاء اللہ " مقام محمود " میں کسی درجہ کی حضور ﷺ کی رفاقت ان کو بھی نصیب ہو گی۔ احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ اپنے پورے لطف و کرم اور اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اور جن بندوں کو ان باتوں کا کچھ احساس و شعور بخشا گیا ہے وہ اس مبارک وقت کی خاص برکات کو محسوس بھی کرتے ہیں۔ اس تمہید کے بعد اب قیام لیل اور تہجد سے متعلق حدیثیں پڑھئے! تشریح ..... سماء دنیا کی طرف اللہ تعالیٰ کا نزول فرمانا جس کا اس حدیث میں ذکر ہے، اللہ تعالیٰ کی ایک صفت اور اس کا ایک فعل ہے جس کی حقیقت ہم نہیں جانتے، جس طرح ید اللہ، وجہ اللہ اور استویٰ علی العرش اور اس کے عام صفات و افعال کی حقیقت اور کیفیت بھی ہم نہیں جانتے، اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات و افعال کی حقیقت اور کیفیت کے علم سے اپنی عاجزی اور جہالت کا اقرار و اعتراف ہی علم ہے۔ ائمہ سلف کا طریقہ اور مسلک یہی رہا ہے کہ ان کے بارے میں اپنی نارسائی اور بےعلمی کا اقرار کیا جائے اور ان کی حقیقت اور کیفیت کا علم دوسرے متشابہات کی طرح خدا کے سپرد کیا جائے اور مانا جائے کہ جو بھی حقیقت ہے وہ حق ہے۔ لیکن اس حدیث کا یہ پیغام بالکل واضح ہے کہ رات کے آخری تہائی حصے میں اللہ تعالیٰ اپنی خاص شان رحمت کے ساتھ بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور خود ان کو دعا اور سوال اور استغفار کے لیے پکارتا ہے۔ جو بندے اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں ان کے لیے اس وقت بسترے پر سوتے رہنا، اس سے زیادہ مشکل ہوتا ہے، جتنا دوسروں کے لیے اسوقت بستر چھوڑ کر کھڑا ہونا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس حقیقت کا ایسا یقین نصیب فرمائے جو اس وقت بے چین کر کے اللہ تعالیٰ کے دربار کی حاضری اور دعا و سوال و استغفار کے لیے کھڑا کر دیا کرے۔
Top