معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 673
عَنْ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي وِتْرِهِ : ‏‏‏‏ " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ ، ‏‏‏‏‏‏وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ ، ‏‏‏‏‏‏وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ". (رواه ابوداؤد والترمذى والنسائى وابن ماجه)
قنوت وتر
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے وتر كے آخر میں یہ دعا کیا کرتے تھےاللهم إني أعوذ برضاك من سخطك اے اللہ! میں تیری ناراضی سے تیری رضا مندی کی پناہ لیتا ہوں، اور تیری سزا اور تیرے عذاب سے تیری عافیت بخشی کی پناہ لیتا ہوں، اور تجھ سے تیری پناہ لیتا ہوں مجھ سے تیری ثناء صفت کا حق ادا نہیں ہو سکتا (بس یہی عرض کر سکتا ہوں کہ) تو ویسا ہی ہے جیسا کہ تو نے اپنی ثناء و صفت بیان کی ہے۔ (سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
سبحان اللہ! کیسا لطیف مضمون ہے اس دعا کا، حاصل پوری دعا کا یہ ہے کہ اللہ کی ناراضی، اللہ کی سزا، اللہ کی پکڑ اور اس کے جلال سے کوئی جائے پناہ نہیں، بس اسی کی رحمت و عنایت اور اسی کی کریم ذات پناہ دے سکتی ہے۔ حضرت علی ؓ کی اس حدیث میں صرف اتنا مذکور ہے کہ " رسول اللہ ﷺ یہ دیا اپنے وتر کے آخر میں کرتے تھے "۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ تیسری رکعت میں قنوت کے طور پر یہ دعا کرتے تھے، اور بعض ائمہ اور علماء نے یہی سمجھا ہے۔ اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وتر کے آخری قعدہ میں سلام سے پہلے یا سلام کے بعد آپ یہ دعا کرتے تھے، اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وتر کے آخری سجدوں میں آپ یہ دعا کرتے تھے۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے رات کی نماز کے سجدے میں رسول اللہ ﷺ کو یہی دعا کرتے ہوئے سنا تھا۔ بہر حال ان سب ہی صورتوں کی گنجائش ہے، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔
Top