معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 669
عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : ‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ‏‏‏‏ " مَنْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ طَمِعَ أَنْ يَقُومَ آخِرَهُ ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ صَلَاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ ، ‏‏‏‏‏‏وَذَلِكَ أَفْضَلُ". (رواه مسلم)
وتر
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کو یہ اندیشہ ہو کہ روات میں وہ اٹھ نہ سکے گا (یعنی سوتا رہ جائے گا) تو اس کو چاہئے کہ رات کے شروع ہی میں (یعنی عشاء کے ساتھ ہی) وتر پڑھ لے اور جس کو اس کی پوری امید ہو کہ وہ (تہجد کے لیے) آخر شب میں اٹھ جائے گا تو اس کو چاہیئے کہ آخر شب ہی میں (یعنی تہجد کے بعد) وتر پڑھے اس لئے کہ اس وقت کی نماز میں ملائکہ رحمت حاضر ہوتے ہیں اور وہ وقت بڑی فضیلت کا ہے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
وتر کے بارے میں عام حکم یہی ہے کہ جو ان دو حدیثوں سے معلوم ہوا، یعنی یہ کہ نماز وتر رات کی سب نمازوں کے بعد میں اور آخر میں پڑھی جائے، یعنی نوافل کے بھی بعد اور یہ کہ جس کسی کو اخیر شب میں اٹھنے کے بارے میں اعتماد ہو وہ وتر شروع رات میں نہ پڑھے بلکہ آخر شب میں تہجد کے ساتھ پڑھے، اور جس کو یہ اعتماد نہ ہو وہ شروع رات ہی پڑھ لیا کرے۔ لیکن بعض صحابہؒ کو رسول اللہ ﷺ نے ان کے خاص حالات کی بناء پر شروع رات ہی میں وتر پڑھ لینے کی ہدایت فرمائی تھی۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بھی انہی میں سے تھے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ان کا یہ بینا موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے وہ چند خاص وصیتیں فرمائی تھیں ان مین سے ایک یہ بھی تھی کہ: " میں شروع رات ہی میں وتر پڑھ لیا کروں "۔
Top