نماز میں درود شریف کا موقع اور اس کی حکمت
حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ اعنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ حضرت (ﷺ)! ہم آپ پر صلوٰۃ (درود) کس طرح پڑھا کریں؟ آپ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ سے یوں عرض کیا کرو۔ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ " اے اللہ! اپنی خاص عنایت اور رحمت فرما حضرت محمد پر اور آپ کی (پاک) بیبیوں اور آپ کی نسل پر، جیسے کہ آپ نے عنایت و رحمت فرمائی آل ابراہیم پر، اور خاص برکت نازل فرما حضرت محمد ﷺ پر اور آپ کی (پاک) بیبیوں اور آپ کی نسل پر، جیسے کہ آپ نے برکتیں نازل فرمائیں آل ابراہیم پر، اے اللہ! تو ساری حمد و ستائش کا سزا وار اور عظمت و بڑائی والا ہے۔ " (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح
اس حدیث میں درود شریف کے جو الفاظ تلقین فرمائے گئے ہیں وہ پہلی حدیث سے کچھ مختلف ہیں لیکن معنی مطلب میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، علماء اور فقہاء نے تصریح کی ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک درود نماز میں پڑھا جا سکتا ہے لیکن معمول زیادہ تر پہلے ہی والا ہے۔
اس حدیث میں بجائے آل کے وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ کے الفاظ ہیں۔ اس سے یہ بات بظاہر متعین ہو جاتی ہے کہ پہلی والی حدیث میں جو آل کا لفظ آیا ہے اس سے آپ کے گھر والے یعنی ازواج مطہرات اور ذریت طیبہ ہی مراد ہیں، اور جس طرح آنحضرت ﷺ نے قرابت و جزئیت اور زندگی میں شرکت کا خاص شرف ان کو حاصل ہے (جو دوسروں کو اگرچہ وہ مرتبہ میں ان سے افضل ہوں حاصل نہیں) اسی طرح درود سلام میں شرکت کا یہ خاص شرف بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو بخشا ہے، اور گویا یہ ان کی خاص سعادت ہے، اور اس سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ یہ ازواج مطہرات وغیرہ امت میں سب سے افضل ہوں۔ اس کو بالکل یوں سمجھنا چاہئے کہ اہل عقیدت و محبت جب اپنے کسی محبوب بزرگ کی خدمت میں کوئی خاص تحفہ بھیجتے ہیں، تو ان کے پیش نظر خود وہ بزرگ اور ان کے گھر والے ہی ہوتے ہیں، اور فطری طور پر وہ اس کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ ہمارا یہ تحفہ خود وہ بزرگ اور ان کے گھر والے استعمال کریں۔ اگرچہ ان بزرگ کے دوستوں یا خادموں میں ایسے بھی لوگ ہوں جن کو یہ تحفہ پیش کرنے والے محبتین و معتقدین بھی گھر والوں سے بدرجہا افضل سمجھتے ہوں۔ بس درود سلام بھی جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا ہے عقیدت و محبت کا تحفہ اور نیاز کیشی کا نظرانہ ہے، اس کو محبت کے فطری قانون ہی کی روشنی میں سمجھنا چاہئے۔ اس کی بنیاد پر افضلیت اور مفضولیت کی خالص کلامی اور قانونی بحث اٹھانا کوئی کوش ذوقی کی بات نہیں ہے۔
نماز میں درود شریف کا موقع اور اس کی حکمت
جیسا کہ معلوم ہے درود شریف نماز کے بالکل آخر میں یعنی آخری قعدہ میں تشہد کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہی اس کے لئے بہترین موقع ہو سکتا ہے، اللہ کے بندے کو رسول اللہ ﷺ کی ہدایت و تعلیم کے صدقے میں ایمان نصیب ہوا، اللہ تعالیٰ کو اس نے جانا پہنچانا اور نماز کی شکل میں اس کے دربار عالی کی حاضری اور حمد و تسبیح اور ذکر و مناجات کی دولت گویا ایک طرح کی معراج اسے نصیب ہوئی اور آخری قعدہ کے تشہد پر یہ نعمت گویا مکمل ہو گئی۔ اب اس کو حکم ہے کہ اللہ کے دربار سے رخصت ہونے سے پہلے اور اپنے لئے کچھ مانگنے سے بھی پہلے وہ بندہ حضڑت محمد ﷺ کے اس احسان کو محسوس کرتے ہوئے کہ انہی کی ہدایت کے صدقے میں اس دربار تک رسائی ہوئی اور یہ سب کچھ نصیب ہوا۔ اللہ تعالیٰ سے آپ کے لئے اور آپ ﷺ کی زندگی کی شریک ازواج مطہرات اور آپ ﷺ کی ذریت طیبہ کے لئے بہتر سے بہتر دعا کرے۔ اس کے سوا اور اس سے بہتر کوئی چیز اس کے پاس ہے ہی نہیں جس کو پیش کر کے وہ اپنے جذبہ ممنونیت کا اظہار اور احسان مندی کا حق ادا کر سکے۔ اسی کے لئے درود شریف کے یہ بہترین کلمے صحابہ کرام کو رسول اللہ ﷺ نے تلقین فرمائے۔
یہاں درود شریف کا یہ بیان نماز کے سلسلے میں آیا تھا اس لئے صرف انہی دو حدیثوں پر یہاں اکتفا کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ اس سلسلے میں قابل ذکر جو حدیثیں درود شریف کے فضائل وغیرہ سے متعلق کتب حدیث میں روایت کی گئی ہیں ان شاء اللہ وہ " کتاب الدعوات " میں اپنے موقع پر درج ہوں گی اور مندرجہ بالا درود ابراہیمی کے علاوہ " صلوٰۃ و سلام " کے جو اور صیغے آنحضرت ﷺ سے قابل اعتماد سندوں کے ساتھ مروی ہیں وہ بھی ان شاء اللہ وہیں درج ہوں گے۔
درود شریف کے بعد اور سلام سے پہلے دعا
ابھی مستدرک حاکم کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ اعنہ کا یہ ارشاد ذکر کیا جا چکا ہے کہ نمازی تشہد کے بعد درود شریف پڑھے اور اس کے بعد دعا کرے۔ بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ اعنہ ہی کی ایک حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آخری قعدہ میں تشہد کے بعد اور سلام سے پہلے دعا کا یہ حکم گالبا اس وقت بھی تھا جب کہ تشہد کے بعد درود شریف پڑھنے کا حکم نہیں کیا گیا تھا۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ کی ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ اعنہ سے تشہد کی تلقین والی حدیث ہی کے آخر میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے:
ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ أَحَدُكُمْ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ فَيَدْعُوَ بِهِ
یعنی نمازی جب تشہد پڑھ چکے تو جو دعا اسے اچھی معلوم ہو اس کا انتخاب کر لے، اور اللہ سے وہی دعا کرے۔
اور یہی بات (کہ تشہد کے بعد دعا کی جائے) آگے درج ہونے والی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ اعنہ کی حدیث سے بھی معلوم ہوتی ہے۔
بہرحال سلام سے پہلے دعا کرنا آنحضرت ﷺ سے تعلیماً بھی ثابت ہے اور عملاً بھی، اور اس موقع کے لئے آپ ﷺ نے بعض خاص دعائیں بھی تعلیم فرمائیں ہیں۔ اس سلسلہ کی صرف تین حدیثیں یہاں درج کی جاتی ہیں: