معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 638
عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ الصَّلاَةُ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ فَاِن اللهَ قَدْ عَلَّمْنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكَ؟ فَقَالَ : " قُولُوا : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ". (رواه البخارى ومسلم)
درود شریف کی حکمت
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ اعنہ (جو اصحاب بیعت رضوان میں سے ہیں) راوی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرتے ہوئے عرض کیا کہ: اللہ تعالیٰ نے یہ تو ہم کو بتا دیا کہ ہم آپ کی خد مت میں سلام کس طرح عرض کیا کریں (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ نے ہم کو بتا دیا ہے کہ ہم تشہد میں السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ کہہ کر آپ پر سلام بھیجا کریں) اب آپ ہمیں یہ بھی بتا دیجئے کہ ہم آپ پر صلوٰۃ (درود) کیسے بھیجا کریں؟ آپ نے فرمایا یوں کہا کرو۔ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ " اے اللہ! اپنی خاص عنایت اور رحمت فرما حضرت محمد پر اور حضرت محمد کے گھر والوں پر جیسے کہ تو نے عنایت و رحمت فرمائی حضرت ابراہیم پر اور ان کے گھر والوں پر، تو حمد ستائش کا سزا وار اور عظمت و بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! خاص برکتیں نازل فرما حضرت محمد ﷺ پر اور حضرت محمد ﷺ کے گھر والوں پر جیسے کہ تو نے خاص برکتیں نازل فرمائیں حضرت ابراہیم اور حضرت ابراہیم کے گھر والوں پر، تو حمد ستائش کا سزا وار اور عظمت و بزرگی والا ہے۔ " (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
درود شریف کی حکمت انسانوں پر خاص کر ان بندوں پر جن کو کسی نبی کی ہدایت و تعلیم سے ایمان نصیب ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے بڑا احسان اس نبی و رسول کا ہوتا ہے، جس کے ذریعہ ان کو ایمان ملا ہو اور ظاہر ہے کہ امت محمدیہ ﷺ کو ایمان کی دولت اللہ کے آخری نبی حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کے واسطہ سے ملی ہے، اس لئے یہ امت اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ ممنون احسان آنحضرت ﷺ کی ہے۔ پھر جس طرح اللہ تعالیٰ جو خالق و مالک اور پروردگار ہے اس کا حق یہ ہے کہ اس کی عبادت اور حمد و تسبیح کی جائے، اسی طرح اس کے پیغمبروں کا حق ہے کہ ان پر درود و سلام بھیجا جائے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ان کے لئے مزید رحمت و رأفت اور رفع درجات کی دعا کی جائے۔ درود و سلام کا مطلب یہی ہوتا ہے۔ اور یہ دراصل ان محسوں کی بارگاہ میں عقیدت و محبت کا ہدیہ، وفاداری و نیاز کیشی کا نذرانہ اور ممنونیت و سپاس گزاری کا اظہار ہوتا ہے، ورنہ ظاہر ہے کہ ان کو ہماری دعاؤں کی کیا احتیاج، بادشاہوں کو فقیروں اور مسکینوں کے ہدیوں اور تحفوں کی کیا ضرورت! تاہم اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارا یہ تحفہ بھی ان کی خدمت میں پہنچاتا ہے، اور ہماری اس دعا و التجا کے حساب میں بھی ان پر اللہ تعالیٰ کے الطاف و عنایات میں اضافہ ہوتا ہے، اور سب سے بڑا فائدہ اس دعا گوئی اور اظہار وفاداری کا خود ہم کو پہنچتا ہے، ہمارا ایمانی رابطہ مستحکم ہوتا ہے، اور ایک دفعہ کے مخلصانہ درود کے صلہ میں اللہ تعالیٰ کی کم از کم دس رحمتوں کے ہم مستحق ہو جاتے ہیں۔ یہ ہے درود و سلام کا راز اور اس کے فوائد و منافع۔ درود و سلام سے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے اس کے علاوہ ایک خاص حکمت درود و سلام کی یہ بھی ہے کہ اس سے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ مقدس اور محترم ہستیاں انبیاء علیہم السلام کی ہیں، جب ان کے لئے بھی حکم یہ ہے کہ ان پر درود و سلام بھیجا جائے (یعنی ان کے واسطے اللہ سے رحمت و سلامتی کی دعا کی جائے) تو معلوم ہوا کہ وہ بھی سلامتی اور رحمت کے لئے خدا کے محتاج ہیں، اور ان کا حق اور مقام علی بس یہی ہے کہ ان کے واسطے رحمت و سلامتی کی دعائیں کی جائیں۔ رحمت و سلامتی خود ان کے ہاتھ میں نہیں ہے، اور جب ان کے ہاتھ میں نہیں ہے تو پھر ظاہر ہے کہ کسی مخلوق کے بھی ہاتھ میں نہیں ہے، کیوں کہ ساری مخلوق میں انہیں کا مقام سب سے بالا و برتر ہے۔ اور شرک کی جڑ بنیاد یہی ہے کہ خیر و رحمت اللہ کے سوا کسی اور کے قبضہ میں بھی سمجھی جائے۔ بہرحال درود و سلام کے اس حکم نے ہم نو نبیوں اور رسولوں کا دعا گو بنا دیا، اور جو بندہ پیغمبروں کا دعا گو ہو وہ کسی مخلوق کا پرستار کیسے ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید میں درود و سلام کا حکم اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا حکم سورہ احزاب کی اس آیت میں دیا ہے اور بڑی شاندار تمہید کے ساتھ دیا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ١ؕ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۰۰۵۶ (احزاب 56: 33) اللہ تعالیٰ کا خاص لطف و کرم ہے اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں ان نبی پر، اے ایمان والو تم بھی درود و سلام بھیجا کرو ان پر۔ اس آیت میں نماز یا غیر نماز کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، بالکل اسی طرح جس طرح کہ قرآن مجید میں جا بجا اللہ کی حمد و تسبیح کا حکم ہے اور نماز یا غیر نماز کا وہاں کوئی تذکرہ نہیں ہے، لیکن جس طرح نور نبوت کی روشنی میں انہی آیتوں سے رسول اللہ ﷺ نے سمجھا کہ اس حمد و تسبیح کا خاص محل نماز ہے (چنانچہ یہ حدیث اپنے موقع پر پہلے گزر چکی ہے، کہ جب فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ اور سَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى آیات قرآنی نازل ہوئیں تو آپ ﷺ نے بتایا کہ اس حکم کی تعمیل اس طرح کی جائے کہ رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ اور سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى پڑھا جائے)۔ اس عاجز کا خیال ہے کہ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے سورہ احزاب کی اس آیت (صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا) کے نزول کے وقت بھی صحابہ کرامؓ کو غالبا بتایا تھا کہ اس حکم کی تعمیل کا خاص محل و موقع نماز کا جزو اخیر قعدہ اخیرہ ہے۔ اس بارے میں کوئی صریح روایت تو اس عاجز کی نظر سے نہیں گزری، لیکن جس بنیاد پر میرا یہ خیال ہے آگے درج ہونے والی حدیث کے ضمن میں اس کو عرض کروں گا۔ اب حدیث پڑھئے۔ تشریح ...... جیسا کہ سورہ احزاب کی مندرجہ بالا آیت میں نماز یا غیر نماز کا کوئی ذکر نہیں ہے اسی طرح کعب بن عجرہ رضی اللہ اعنہ کی اس روایت میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ہے، لیکن ایک دوسرے صحابی حضرت ابو مسعود انصاری بدری رضی اللہ اعنہ سے بھی قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث مروی ہے۔ اس کی بعض روایات میں سوال کے الفاظ یہ نقل کئے گئے ہیں: كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ إِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا عَلَيْكَ فِي صَلَاتِنَا (۱) حضرت (ﷺ)! ہم جب نماز میں آپ (ﷺ) پر درود پڑھیں تو کس طرح پڑھا کریں؟ اس روایت میں صراحۃً معلوم ہوا کہ صحابہؓ کا یہ سوال نماز میں درود شریف پڑھنے کے بارے میں تھا اور گویا یہ بات ان کو معلوم ہو چکی تھی کہ درود کا خاص محل نماز ہے۔ اس کے علاوہ حاکم نے مستدرک میں بہ سند قوی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ اعنہ کا یہ ارشاد روایت کیا ہے: يتشهد الرجل ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِىِّ ثُمَّ يَدْعُوْا لِنَفْسِهِ (۲) ؎ آدمی نماز میں (یعنی قعدہ اخیرہ میں) تشہد پڑھے اس کے بعد رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجے، اس کے بعد اپنے لئے دعا کرے۔ ظاہر ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ اعنہ نے یہ بات حضور ﷺ سے سننے کے بعد ہی فرمائی ہو گی، وہ اپنی طرف سے کیسے کہہ سکتے تھے کہ تشہد کے بعد نمازی کو درود شریف پڑھنی چاہئے۔ بہرحال ان ساری چیزوں کو سامنے رکھنے کے بعد یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ سورہ احزاب میں رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے کا جو حکم دیا گیا تھا اس کے بارے میں صحابہ کرامؓ کو یہ بات تو معلوم ہو چکی تھی کہ اس کی تعمیل کا خاص محل نماز اور اس کا بھی جزو اخیر قعدہ اخیرہ ہے۔ اس کے بعد انہوں نے آپ ﷺ سے دریافت کیا تھا کہ ہم نماز میں یہ درود کس طرح اور کن الفاظ میں بھیجا کریں، بس اسی کے جواب میں آپ نے یہ درود ابراہیمی تلقین فرمائی جو ہم اپنی نمازوں میں پڑھتے ہیں۔ درود شریف میں آل کا مطلب اس درود میں ‘آل’ کا لفظ جو چار دفعہ آیا ہے اس کا ترجمہ ہم نے " گھر والوں " کیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عربی زبان خاص کر قران و حدیث کے محاورے میں کسی شخص کے ‘آل’ ان کو کہا جاتا ہے جو اس کے ساتھ خاص الخاص تعلق رکھتے ہوں، خواہ یہ تعلق نسب اور رشتہ کا ہو (جیسے اس شخص کے بیوی بچے) یا رفاقت و معیت اور عقیدت و محبت اور اتباع و اطاعت (3) کا (جیسے کہ اس کے مشن کے خاص ساتھی اور محبین و متبعین)۔ اس لئے اصل لغت کے لحاظ سے یہاں آل کے معنی دونوں ہو سکتے ہیں، لیکن آگے حضرت ابو حمید ساعدی کی جو حدیث درج ہو رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ‘آل’ سے مراد آپ ﷺ کے گھر والے یعنی ازواج مطہرات اور آپ ﷺ کی نسل و اولاد ہی ہے۔ واللہ اعلم۔
Top