معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 635
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بن عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يَرَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، يَتَرَبَّعُ فِي الصَّلاَةِ إِذَا جَلَسَ ، فَفَعَلْتُهُ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ حَدِيثُ السِّنِّ ، فَنَهَانِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، وَقَالَ : « إِنَّمَا سُنَّةُ الصَّلاَةِ أَنْ تَنْصِبَ رِجْلَكَ اليُمْنَى وَتَثْنِيَ اليُسْرَى » ، فَقُلْتُ : إِنَّكَ تَفْعَلُ ذَلِكَ ، فَقَالَ : إِنَّ رِجْلَاىَ لاَ تَحْمِلاَنِي. (رواه البخارى)
قعدہ کا صحیح اور مسنون طریقہ
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے فرزند عبداللہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے والد ماجد (حضرت عبداللہ بن عمرؓ) کو دیکھتے تھے کہ وہ نماز میں چہار زانو بیٹھتے تھے۔ (کہتے ہیں کہ والد ماجد کی پیروی میں) میں بھی اسی طرح چہار زانو بیٹھنے لگا۔ حالانکہ میں اس وقت بالکل نو عمر تھا، تو والد ماجد نے مجھے اس طرح بیٹھنے سے منع فرمایا اور مجھے بتایا کہ نماز میں بیٹھنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنا داہنا پاؤں کھڑا کرو، اور بایاں پاؤں موڑ کر بچھاؤ۔ میں نے عرض کیا کہ: خود چہار انو بیٹھتے ہیں: انہوں نے فرمایا کہ (میں مجبوری اور معذوری کی وجہ سے اس طرح بیٹھتا ہوں) میرے پاؤں اب میرا بوجھ نہیں سہارتے۔ (صحیح بخاری)

تشریح
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ایک صاحبزادے کا نام بھی عبداللہ ہی تھا، یہ انہیں کا واقعہ ہے جو مذکور ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو اللہ تعالیٰ نے طویل عمر عطا فرمائی۔ ۸۴ سال اور ایک روایت کے مطابق ۸۶ سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اخیر عمر میں ضعف پیری کی وجہ سے وہ نماز میں سنت کے مطابق اپنے پاؤں پر نہیں بیٹھ سکتے تھے، اس وجہ سے مجبورا چہار زانو بیٹھنا پڑتا تھا (اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے پاؤں میں کوئی خاص تکلیف تھی اس کی وجہ سے وہ قعدہ میں سنت کے مطابق بیٹھنے سے معذور تھے) بہرحال ان کے صاحبزادے عبداللہ نے بھی صرف ان کی تقلید اور پیروی میں ان ہی کی طرح چہار زانو بیٹھنا شروع کر دیا (اگرچہ وہ اس وقت بقول خود بوڑھے نہیں بلکہ نو عمر اور نو جوان تھے) حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ان کو ایسا کرتے دیکھا تو منع فرمایا اور بتایا کہ نماز میں بیٹھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ داہنا پاؤں کھڑا کیا جائے اور بایاں پاؤں موڑ کر اس پر بیٹھا جائے اور اپنے متعلق فرمایا کہ میں معذوری کی وجہ سے چہار زانوں بیٹھتا ہوں، میرے پاؤں میرے جسم کا بوجھ سہارنے کے قابل نہیں ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے آخری الفاظ " إِنَّ رِجْلَاىَ لاَ تَحْمِلاَنِي " (میری دونوں پاؤں میرا بوجھ نہیں سہار سکتے) سے یہ بات صاف سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے نزدیک قعدہ کا مسنون طریقہ وہ تھا جس میں آدمی کے جسم کا بوجھ اس کے دونوں پاؤں پر رہتا ہے، اور وہ وہی ہے جس کو " افتراش " کہتے ہیں اور جو ہم لوگوں کا معمول ہے۔ شرح حدیث کے اسی سلسلہ میں زیر عنوان " نماز کس طرح پڑھی جائے " حضرت ابو حمید ساعدیؓ کی وہ روایت مذکور ہو چکی ہے جس میں آخری قعدہ میں رسول اللہ ﷺ کا ایک طریقے پر بیٹھنا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کو " تورک " کہتے ہیں۔ اور اس بارے میں ائمہ اور شارحین حدیث کے مختلف نقطہ ہائے نظر کا بھی وہیں ذکر کیا جا چکا ہے۔
Top