معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 607
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا ، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ » (رواه البخارى ومسلم)
سورہ فاتحہ کے ختم پر “ آمین ”
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب امام (سورہ فاتحہ کے ختم پر) " آمین " کہے تو تم مقتدی بھی آمین کہو، جس کی آمین ملائکہ کی آمین کے موافق ہو گی اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
سورہ فاتحہ جو متعین اور حتمی طور سے نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے، جیسا کہ معلوم ہے اس کی ابتدائی تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے اور چوتھی آیت میں اس کی توحید کا اقرار و اظہار اور دعا کی تمہید ہے، اور اس کے بعد کی تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا اور اس کا سوال ہے، اور اسی پر یہ سورۃ ختم ہو جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے ختم پر " آمین " کہنے کی ہدایت فرمائی ہے، اور جب نماز جماعت کے ساتھ کسی امام کے پیچھے پڑھی جا رہی ہو تو حکم ہے کہ جب امام سورہ فاتحہ کی آخری دعائیہ آیتیں پڑھنے کے بعد اس حکم کے مطابق آمین کہے تو اس کے ساتھ مقتدی بھی آمین کہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی اطلاع ہے کہ اس وقت اللہ کے فرشتے بھی آمین کہتے ہیں۔ تشریح ..... کسی کی آمین ملائکہ کی آمین کے موافق ہونے کے شارحین نے کئی مطلب بیان کئے ہیں، ان میں سب سے زیادہ راجح یہ ہے کہ ملائکہ کی آمین کے ساتھ آمین کہی جائے نہ اس سے پہلے ہو نہ اس کے بعد میں اور ملائکہ کی آمین کا وقت وہی ہے جب کہ امام آمین کہے۔ اس بناء پر رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہو گا کہ جب امام ورہ فاتحہ ختم کر کے آمین کہے تو مقتدیوں کو چاہئے کہ وہ بھی اسی وقت آمین کہیں کیوں کہ اللہ کے فرشتے بھی اسی وقت آمین کہتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ جو بندے فرشتوں کی آمین کے ساتھ آمین کہیں گے ان کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
Top