معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 586
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا ، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا. (رواه ابوداؤد والترمذى وابن ماجه)
مسئلہ قرأت فاتحہ میں ائمہ مجتہدین کے مذاہب
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: امام اس لئے بنایا گیا ہے کہ مقتدی لوگ اس کی اقتداء اور اتباع کریں لہذا جب امام اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموشی سے کان لگا کر سنو۔ (سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
ائمہ مجتہدین میں سے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور بعض دوسرے حضرات نے اس حدیث سے اور اسی طرح کی بعض اور احادیث سے یہ سمجھا ہے کہ نمازی خواہ اکیلے نماز پڑھ رہا ہو، خواہ امامت کر رہا ہو، خواہ مقتدی ہو اور نماز خواہ جہری ہو یا سری ہر حال میں اس کے لئے سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ اور حضرت امام مالک ؒ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ اور ان کے علاوہ دوسرے بھی بہت سے ائمہ نے اس حدیث کے ساتھ اسی مسئلہ سے متعلق دوسری بعض حدیثوں کو بھی سامنے رکھ کر یہ رائے قائم فرمائی ہے کہ اگر نمازی مقتدی ہو اور نماز جہری ہو تو امام کی قرأت مقتدیوں کی طرف سے بھی کافی ہے، لہذا اس صورت میں مقتدی کو خود قرأت نہیں کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ باقی تمام صورتوں میں نمازی کو سورہ فاتحہ لازماً پڑھنا چاہئے۔ امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ بھی اسی کے قائل ہیں، بلکہ وہ سری نمازوں میں بھی امام کی قرأت کو مقتدی کی طرف سے کافی سمجھتے ہیں۔ ان حضرات کے اس نقطہ نظر کی بنیاد جن حدیثوں پر ہے ان میں سے ایک وہ بھی ہے جو اگلے ہی نمبر پر درج ہو رہی ہے۔ تشریح ..... امام کی قرأت کے وقت خاموشی سے سننے کی یہ ہدایت بالکل انہی الفاظ میں بعض اور صحابہ کرامؓ نے بھی رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم مں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے ایک طویل حدیث کے ضمن میں یہ ہدایت انہی الفاظ میں مروی ہے۔ اور وہیں ایک شاگرد کے سوال کے جواب میں امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہؓ والی اس حدیث کی بھی صحیح اور توثیق کی ہے اور بظاہر رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت کا مأخذ و منشاء قرآن مجید کا یہ واضح فرمان ہے: وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۰۰۲۰۴ (اور جب قرآن پاک کی قرأت ہو تو تم اس کو متوجہ ہو کر سنو اور خاموش رہو، شاید کہ ان کی وجہ سے تم رحمت کے قابل ہو جاؤ) امام ابو حنیفہؒ جو سری نمازوں میں بھی امام کی قرأت کو مقتدی کے لئے کافی سمجھتے ہیں ان کا خاص استدلال حضرت جابر ؓ کی اس حدیث سے بھی ہے جس کو ام محمد اور امام طحاوی اور امام دار قطنی وغیرہ نے خود امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی سند سے اپنی مصنفات میں روایت کیا ہے۔ موطا امام محمد کی روایت کے الفاظ یہ ہے: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ عَنِ النَّبِىِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "مَنْ صَلَّى خَلْفَ الْإِمَامِ فَإِنَّ قِرَاءَةَ الْإِمَامِ له قراءة" حضرت جابر بن عبداللہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اما کی قرأت اس کی بھی قرأت ہے۔ فائدہ ........ یہ مسئلہ کہ امام کے پیچھے مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنی چاہئے یا نہیں؟ ان معرکۃ الآراء اختلافی مسائل میں سے ہے جن پر ہماری اس صدی میں بلا مبالغہ سینکڑوں کتابیں دونوں طرف سے لکھی گئی ہیں، اور بلا شبہ ان میں بعض تو علم و تحقیق اور نکتہ آفرینی کے لحاظ سے شاہکار ہیں لیکن معارف الحدیث کا یہ سلسلہ امت کے جس طبقہ کے لئے اور جس مقصد کو سامنے رکھ کر لکھا جا رہا ہے، یہ مباحث اس کے لحاظ سے نہ صرف غیر ضروری ہیں بلکہ بعض پہلوؤں سے مضر بھی ہو سکتے ہیں،۔ اس قسم کے تمام اختلافی مسائل میں صحیح راہ یہ ہے کہ تمام ائمہ سلف کے ساتھ نیک گمان رکھا جائے، دل سے ان کا احترام کیا جائے اور سمجھا جائے کہ ان میں سے ہر ایک نے کتاب و سنت اور صحابہ کرامؓ کے طرز عمل کا مطالعہ اور اس میں غور فکر کے بعد جو کچھ اپنے نزدیک زیادہ راجح سمجھا ہے نیک نیتی سے اس کو اختیار کر لیا ہے، ان میں سے کوئی بھی باطل پر نہیں ہے۔ اور یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ امت کی مصلحت عامہ کی خاطر، جہالت و نفسانیت اور فتنوں کے اس دور میں کسی ایک مسلک سے اپنے کو وابستہ رکھا جائے۔ بہرحال معارف الحدیث کے اس سلسلہ میں بحث و مناظرہ کی راہ سے بچتے ہوئے چلنے کا التزام کیا گیا ہے۔ الحمدللہ پوری بصیرت و یقین کے ساتھ اس عاجز کی یہ رائے ہے کہ ہندوستان کے مایہ فخر اور استاذ الاساتذہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ اللہ البالغۃ وغیرہ میں اصولی طور پر جو عدل و اعتدال ان اختلافی مسائل کے بارے میں اختیار کی ہے، اس دور میں امت محمدیہ کے لئے بس وہی راہ ہے جس کو اپنا لینے کے بعد امت کا بکھرا ہوا شیرازہ پھر سے جڑ سکتا ہے۔
Top