معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 584
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : « لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةٍ » قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : « فَمَا أَعْلَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَنَّاهُ لَكُمْ ، وَمَا أَخْفَاهُ أَخْفَيْنَاهُ لَكُمْ » (رواه مسلم)
نماز میں قرأت قرآن
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قرآن کی قرأت کے بغیر نماز ہوتی ہی نہیں۔ آگے حضرت ابو ہریرہؓ اپنی طرف سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جن نمازوں میں قرأت بالجہر فرماتے تھے ان میں ہم بھی جہر کرتے ہیں اور دوسروں کو سنا کے پڑھتے ہیں، اور جہاں آپ ﷺ آہستہ خاموشی سے پڑھتے تھے، وہاں ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں، اور تم سو سنا کے نہیں پڑھتے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
قیام اور رکوع و سجود کی طرح قرآن مجید کی قرأت بھی نماز کا ایک لازمی جزو اور بُنیادی رکن ہے اور اس کا محل و موقع قیام ہے۔ جیسا کہ معلوم اور معمول ہے قرأت کی ترتیب یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء تسبیح و تقدیس اور اپنی عبودت کے اظہار پر مشتمل کوئی دعا اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کی جاتی ہے (اس موقع کی تین ماثور دعائیں سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وبحمدك وغیرہ عنقریب ہی مذکور ہو چکی ہیں) اس کے بعد قرآن مجید کی سب سے پہلی سورۃ جو گویا اس کا افتتاحیہ ہے، یعنی سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی حمع کے ساتھ اس کی صفات کا بڑا جامع اور مؤثر بیان بھی ہے، ہر قسم کے شرک کی نفی کے ساتھ اس کی توحید کا اثبات و اقرار بھی ہے۔ صرف مستقیم یعنی دین حق اور شریعت الہیہ کے لئے اپنی ضرورت مندی اور محتاجی کی بناء پر اس کی ہدایت کے لئے عاجزانہ اور فقیرانہ سوال اور دعا بھی ہے۔ بہرحال سب سے پہلے یہ سورۃ پڑھی جاتی ہے، اور اپنی جامعیت اور خاص عظمت و اہمیت کی وجہ سے یہ متعین طور سے اس درجہ میں لازمی اور ضروری ہے کہ اس کے بغیر گویا نماز ہی نہیں ہوتی، اس کے بعد نمازی کو اجازت بلکہ حکم ہے کہ وہ قرآن مجید کی کوئی بھی سورت یا کسی سورۃ کا کوئی بھی حصہ پڑھے۔ قرآن مجید کا جو حصہ بھی وہ پڑھے گا اس میں اس کے لئے ہدایت کا کوئی نہ کوئی پیغام ضرور ہو گا، یا تو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی صفات کاملہ کا بیان ہو گا یا یوم آخرت اور جنت و دوزخ اور نیک کرداری و بدکرداری کی جزا سزا کا ذکر ہو گا، یا عملی زندگی سے متعلق کوئی فرمان ہو گا، یا کسی سبق آموز اور عبرت انگیز واقعہ کا تذکرہ ہو گا۔ الغرض پڑھنے والے کے کوئی نہ کوئی رہنمائی اس میں ضرور ہو گی، یہ گویا اس کی دعاء ہدایت (اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ) کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نقد جواب ہو گا جو اسی کی زبان پر جاری ہو گا۔ پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح سورہ فاتحہ اور اس کے بعد کوئی اور سورۃ یا کسی سورۃ سے کچھ آیتیں پڑھی جائیں گی۔ اور اگر نماز تین یا چار رکعت والی ہو تو تیسری اور چوتھی رکعت میں بھی سورہ فاتحہ تو ضرور پڑھی جائے گی، لیکن اس کے ساتھ کچھ اور پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ اس تمہید کے بعد مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے جن میں سے بعض تو نماز کے اندر قرأت سے متعلق رسول اللہ ﷺ کے ارشادات ہیں، اور زیادہ تر وہ ہیں جن سے معلوم ہو گا کہ قراة فى الصلاة کے بارے میں آپ ﷺ کا طرز عمل کیا تھا اور کس نماز میں آپ کتنی قرأت کرتے تھے اور کون کون سی سورتیں زیادہ تر پڑھتے تھے۔ اس حدیث میں نماز کے لئے قرآن کی کسی خاص سورۃ کا نہیں بلکہ مطلب قرأت قرآن کا رکن ہونا بیان کیا ہے۔ آگے حدیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ ؓ کا یہ بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ جن نمازوں اور جن رکعتوں میں بالجہر قرأت فرماتے تھے ان ہی میں ہم بھی بالجہر قرأت کرتے ہیں اور جہاں آپ ﷺ خاموشی سے پڑھتے تھے وہاں ہم بھی خاموشی پڑھتے ہیں۔
Top