معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 581
عَنْ أَبِىْ هُرَيْرَةَ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْكُتُ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَبَيْنَ القِرَاءَةِ إِسْكَاتَةً فَقُلْتُ : بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِسْكَاتُكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالقِرَاءَةِ مَا تَقُولُ؟ قَالَ : " أَقُولُ : اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ ، كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالبَرَدِ " (رواه البخارى ومسلم)
خاص اذکار اور دعائیں
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان کچھ دیر سکوت فرماتے تھے (یعنی آواز سے کچھ نہیں پڑھتے تھے، لیکن محسوس ہوتا تھا ک آپ ﷺ خاموشی سے کچھ پڑھتے ہیں) تو میں نے ایک دفعہ عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتا دیجئے کہ تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان کی خاموشی میں آپو کیا پڑھتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: میں اللہ سے دُعا کرتا ہوں اللَّهُمَّ بَاعِدْ ..... الخ کہ اے اللہ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اتنا طویل فاصلہ کر دے جتنا طویل فاصلہ تو نے مشرق و مغرب کے درمیان کر دیا ہے اور اے اللہ! مجھے خطاؤں سے ایسا پاک و صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑا میل کچیل سے پاک صاف کر دیا جاتا ہے، اور اے اللہ! میری خطاؤں کو پانی سے اور برف سے اور اولے سے دھو ڈال۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نماز کے مختلف اجزاء یعنی قیام اور رکوع و سجود وغیرہ میں جن کلمات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس اور حمد و ثناء کرتے تھے اور اس سے جو دعائیں اور التجائیں کرتے تھے (جن میں چند ان شاء اللہ آگے درج ہونے والی حدیثوں سے ناظرین کو معلوم ہوں گی) ان اذکار و دعوات سے دل کی جس کیفیت کی ترجمانی ہوتی ہے وہی دراصل نماز کی حقیقت اور روح ہے۔ اسی نقطہ نظر سے ان حدیثوں کو پڑھئے اور ان کیفیات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کیجئے، یہی دولت عظمیٰ رسول اللہ ﷺ کا خاص الخاص ورثہ ہے۔ تشریح ..... رسول اللہ ﷺ اگرچہ عام معاصی اور منکرات سے معصوم اور محفوظ تھے، لیکن " قریباں را بیش بود حیرانی " کے فطری اصول پر آپ ﷺ ان لغزشوں سے سخت لرزاں و ترساں رہتے تھے جو بر بنائے بشریت آپ ﷺ سے سرزد ہو سکتی تھیں اور معصیت نہ ہونے کے باوجود آپ ﷺ کی شان عالی ار مقام قرب کے لحاظ سے قابل گرفت ہو سکتی تھیں۔ ع جن کے رتبے ہیں سوا، ان کو سوا مشکل ہے بہرحال رسول اللہ ﷺ کی اس قسم کی دعاؤں میں " خَطَايَا " یا " ذنوب " جیسے الفاظ جہاں جہاں آتے ہیں وہاں اُن سے اسی قسم کی لغزشیں مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔ اس حدیث میں جو دعا مذکور ہوئی ہے اس کا حاصل بس یہ ہے کہ اے میرے اللہ! تو مجھے ہر قسم کی خطاؤں اور غلطیوں سے اس قدر دور رکھ جس قدر تو نے مشرق کو مغرب سے اور مغرب کو مشرق سے دور رکھا ہے اور بنائے بشریت جب کوئی خطا مجھ سے سرزد ہو جائے تو اس کو معاف فرما کر اس کے داغ دھبہ سے بھی مجھے ایسا پاک صاف کر دے جیسا کہ میل کچیل دور کر کے سفید کپڑا بالکل پاک صاف کر دیا جاتا ہے، اور اپنی رحمت کے نہایت ٹھنڈے پانی سے میرے باطن کو غسل دے کر خطا قصور سے پیدا ہونے والی اپنے غضب کی آگ اور اس کی سوزش و جلن کو بالکل ٹھنڈا کر دے اور اس کے بجائے اپنی رضا کی ٹھنڈک اور سکینت میرے باطن کو نصیب فرما دے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ تکبیر کے بعد اور قرأت سے پہلے کبھی کبھی یہ دعا بھی پڑھتے تھے۔
Top