معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 580
عَنْ أَبِىْ حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ قَالَ فِىْ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا كُنْتُ أَحْفَظَكُمْ لِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ « رَأَيْتُهُ إِذَا كَبَّرَ جَعَلَ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ ، وَإِذَا رَكَعَ أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ ، ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرَهُ ، فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ اسْتَوَى حَتَّى يَعُودَ كُلُّ فَقَارٍ مَكَانَهُ ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلاَ قَابِضِهِمَا ، وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ القِبْلَةَ ، فَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ جَلَسَ عَلَى رِجْلِهِ اليُسْرَى ، وَنَصَبَ اليُمْنَى ، فَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَةِ الآخِرَةِ قَدَّمَ رِجْلَهُ اليُسْرَى ، وَنَصَبَ الأُخْرَى وَقَعَدَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ » (رواه البخارى)
رسول اللہ ﷺ کس طرح نماز پڑھتے تھے ؟
حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کے سامنے فرمایا کہ: مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز یعنی اس کی تفصیلات آپ سب لوگوں سے زیادہ یاد ہیں (اس کے بعد فرمایا کہ) میں نے آپ ﷺ کو دیکھا ہے کہ نماز شروع کرتے ہوئے جب آپ ﷺ تکبیر کہتے تو اپنے دوفنوں ہاتھ اٹھا کر مونڈھوں تک لے جاتے، اور جب رکوع میں جاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں سے گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑ لیتے پھر اپنی کمر کو پوری طرح موڑ دیتے (اور بالکل سیدھی برابر کر دیتے)۔ پھر جب رکوع سے سر مبارک اٹھاتے تو بالکل سیدھے اس طرح کھڑے ہو جاتے کہ ریڑھ کی ہڈی کا ہر منکا (یعنی ہر جوڑ) ٹھیک اپنی جگہ پر آ جاتا (جہاں سیدھے کھڑے ہونے کی حالت میں وہ رہتا ہے) پھر جب آپ ﷺ سجدہ میں جاتے تو اپنے دونوں ہاتھ زمین پر اس طرح رکھ دیتے کہ نہ تو ان کو زمین پر بچھا دیتے اور نہ ان کو سکیڑ لیتے (مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ سجدہ کی حالت میں دونوں ہاتھوں کو سکیڑ نہیں لیتے تھے بلکہ آگے بڑھا کر اپنے چہرے کے مقابلے میں دائیں بائیں رکھ لیتے تھے، لیکن کلائیاں اور کہنیاں زمین سے الگ اور اُٹھی رہتی تھیں)۔ اور پاؤں کی انگلیوں کا رخ سجدہ میں قبلہ کی جانب ہوتا تھا۔ پھر جب دو رکعت پڑھ کے آپ ﷺ (التحیات کے لئے) بیٹھتے تو داہنے پاؤں کو کھڑا کر لیتے اور بائیں پاؤں پر بیٹھ جاتے۔ پھر جب آخری رکعت پڑھ کے آپ ﷺ قعدہ اخیرہ کرتے تو اس طرح بیٹھتے کہ داہنے پاؤں کو کھڑا کر لیتے اور بائیں پاؤں کو (اس کے نیچے سے) آگے کی جانب نکال دیتے اور اپنی سرینوں پر بیٹھ جاتے (جس کو تورّک کہتے ہیں)۔ (صحیح بخاری)

تشریح
ابو حمید ساعدی ؓ کی اس حدیث میں تکبیر تحریمہ کے وقت مونڈھوں تک ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے۔ اور صحیح بخاری و صحیح مسلم میں دوسرے ایک صحابی مالک بن الحویرثؓ کا بیان ہے کہ: " حَتَّى يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ " جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ﷺ تکبیر تحریمہ کے وقت اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھاتے تھے، لیکن ان دونوں باتوں میں کوئی منافات نہیں ہے جب ہاتھ اس طرح اٹھائے جائین کہ انگلیاں کانوں تک پہنچ جائیں تو ہاتھوں کا نیچے والا حصہ مونڈھوں کے مقابل ہو گا، اور اس صورت کو کانوں تک ہاتھ اٹھانے سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے اور مونڈھوں تک اُٹھانے سے بھی۔ ایک اور صحابی وائل بن حجرؓ نے وضاحت کے ساتھ یہی بات کہی ہے۔ سنن ابی داؤد کی ایک روایت میں ان کے الفاظ یہ ہیں: " رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى كَانَتَا بِحِيَالِ مَنْكَبَيْهِ وَحَاذَى إِبْهَامَيْهِ أُذُنَيْهِ " (آپ تکبیر تحریمہ کے وقت اپنے ہاتھوں کو اتنا اٹھاتے کہ وہ مونڈھوں کے برابر ہو جاتے، اور دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے کانوں کے محاذات میں آ جاتے)۔ حضرت ابو حمید ساعدی کی اس حدیث میں ایک خاص بات یہ بھی بیان فرمائی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ قعدہ اخیرہ میں اس طریقہ پر بیٹھتے تھے جس تورُّک کہتے ہیں، لیکن حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی جو حدیث ابھی اوپر گزر چکی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قعدہ میں آپ ﷺ کے بیٹھنے کا عام طریقہ وہی تھا جو حضرت ابو حمید ساعدیؓ نے قعدہ اولیٰ کا بیان کیا ہے اور جس کو اصطلاح میں افتراش کہتے ہیں۔ بعض ائمہ اور شارحینحدیث کا خیال اس بارے میں یہ ہے کہ قعدہ میں رسول اللہ ﷺ کے بیٹھنے کا عام طریقہ تو وہی تھا جو حضرت صدیقہ ؓ کی حدیث سے معلوم ہو چکا ہے، لیکن کبھی کبھی سہولت کے لئے یا یہ ظاہر کرنے اور بتانے کے واسطے کہ اس طرح بھی بیٹھا جا سکتا ہے آپ ﷺ نے تورُّک بھی کیا، دوسری رائے اس کے بالکل برعکس بھی ہے ..... اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ہی طریقے مشروع ہیں۔
Top