معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 579
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ « يَسْتَفْتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ. وَالْقِرَاءَةِ ، بِالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يُشْخِصْ رَأْسَهُ ، وَلَمْ يُصَوِّبْهُ وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ ، حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ ، لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ جَالِسًا ، وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ ، وَكَانَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى ، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عُقْبَةِ الشَّيْطَانِ. وَيَنْهَى أَنْ يَفْتَرِشَ الرَّجُلُ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ السَّبُعِ ، وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ » (رواه مسلم)
رسول اللہ ﷺ کس طرح نماز پڑھتے تھے ؟
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تکبیر تحریمہ سے نماز شروع فرماتے تھے اور قرأت کو الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين سے کرتے تھے، اور جب آپ رکوع میں جاتے تو سر مبارک کو نہ تو اوپر کی جانب اٹھاتے اور نہ نیچے کی جانب جھکاتے، بلکہ درمیانی حالت میں رکھتے تھے (یعنی بالکل کمر کے متوازی) اور جب رکوع سے سر مبارک اٹھاتے تو سجدہ میں اس وقت تک نہ جاتے جب تک کہ سیدھے کھڑے نہ ہو جاتے، اور جب سجدہ سے سر مبارک اٹھاتے تو جب تک بالکل سیدھے نہ بیٹھ جاتے دوسرا سجدہ نہیں فرماتے اور ہر دو رکعت پر التحیات پڑھتے تھے، اور اس وقت اپنے بائیں پاؤں کو نیچے بچھا لیتے اور داہنے پاؤں کو کھڑا کر لیتے تھے، اور عُقْبَةِ الشَّيْطَانِ (یعنی شیطان کی طرح) بیٹھنے سے منع فرماتے تھے، اور اس بات سے بھی منع فرماتے تھے کہ آدمی (سجدہ میں) اپنی باہیں (یعنی کلائیاں کہنیوں تک) زمین پر رکھے جس طرح کہ درندے اپنی کلائیاں بچھا کے بیٹھتے ہیں، اور آپ ﷺ السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہہ کے نماز ختم فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
نماز عبادت بلکہ اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے، اس لئے اس کے لئے قیام، قعود، رکوع و سجود کی وہ شکلیں اور ہیئیتیں مقرر کی گئی ہیں جو عبادت اور بندگی کی بہترین اور مکمل ترین تصویر ہیں، اور ان نامناسب ہیئتوں سے خصوصیت کے ساتھ منع فرمایا گیا ہے جن میں استکبار،، یا بےپروائی یا بدمنظری کی شان ہو یا کسی بد فطرت مخلوق کی ہیئت سے مشابہت ہو۔ اس اصول کے تحت رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ سجدے میں آدمی کلائیاں زمین پر اس طرح بچھا دے جس طرح کتے اور بھیڑئیے وغیرہ درندے بچھا کر بیٹھتے ہیں اور اسی اصول کے تحت آپ ﷺ نے اس طرح بیٹھنے سے بھی منع فرمایا جس کو اس حدیث میں " عُقْبَةِ الشَّيْطَانِ " اور ایک دوسری حدیث میں " اقعاء الكلب " فرمایا گیا ہے۔ شارحین اور فقہاء نے اس کی تشریح دو طرح سے کی ہے۔ اس عاجز کے نزدیک راجح یہ ہے کہ اس سے مراد دونوں پاؤں پنجوں کے بل کھڑے کر کے اُن کی ایڑیوں پر بیٹھنا ہے (1)۔ اور چونکہ اس طریقے میں کچھ استکبار اور جلد بازی کی شان ہے، اور اس شکل میں صرف گھٹنے اور پنجے ہی زمین سے لگتے ہیں۔ نیز کتے، بھیڑئیے وغیرہ درندے بھی اس طرح ایڑیوں پر بیٹھا کرتے ہیں، اس لئےنماز میں اس طرح بیٹھنے سے بھی رسول اللہ ﷺ نے خصوصیت کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ممانعت صرف اس صورت میں ہے جب کہ بغیر کسی مجبوری کے آدمی ایسا کرے۔ اگر بالفرض کسی کو کوئی خاص مجبوری ہو تو وہ معذور ہے، اور اس کے حق میں بلا کراہت جائز ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے متعلق مروی ہے کہ ان کے پاؤں میں کچھ تکلیف رہتی تھی جس کی وجہ سے وہ بطریق مسنون قعدہ نہیں کر سکتے تھے، اس لئے کبھی کبھی اس طرح بھی بیٹھ جاتے تھے۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے صحیح مسلم وغیرہ میں جو مروی ہے کہ انہوں نے اس طرح بیٹھنے کو " سنة نبيكم " فرمایا، تو اس کا مطلب بھی بظاہر یہی ہے رسول اللہ ﷺ کبھی کسی معذوری کی وجہ سے اس طرح بھی بیٹھے ہیں۔ واللہ اعلم۔ بہرحال اگر کوئی معذور ہو تو وہ اس طرح بھی بیٹھ سکتا ہے، ورنہ عام حالات میں اور بلا عذر نماز میں اس طرح بیٹھنے کی ممانعت ہے۔
Top