معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 554
عَنْ عَبْدُاللهِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِذَا وُضِعَ عَشَاءُ أَحَدِكُمْ وَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ ، فَابْدَءُوا بِالعَشَاءِ وَلاَ يَعْجَلْ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهُ » (رواه البخارى ومسلم)
کن حالات میں مسجد اور جماعت کی پابندی ضروری نہیں
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کا رات کا کھانا (کھانے کے لیے) سامنے رکھ دیا جائے اور (دوسری طرف مسجد میں) جماعت کھڑی ہو جائے تو پہلے وہ کھانا کھا لے اور جب تک اس سے فراغت نہ ہو جائے جلد بازی سے کام نہ لے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
شارحین لنے لکھا ہے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ آدمی کو بھوک اور کھانے کا تقاضا ہو اور کھانا سامنے رکھ دیا گیا ہو، ایسی حالت میں اگر آدمی کو حکم دیا جائے گا کہ وہ کھانا چھوڑ کے نماز میں شریک ہو تو اس کا کافی امکان ہے کہ اس کا دل نماز پڑھتے ہوئے بھی کھانے میں لگا رہے، اس لئے ایسی صورت میں شریعت کا حکم اور حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ پہلے کھانے سے فارغ ہو اس کے بعد نماز پڑھے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی اسی روایت میں حدیث کے راوی حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے متعلق نقل کیا گیا ہے کہ خود ان کو بھی ایسا اتفاق ہو جاتا تھا کہ ان کے سامنے کھانا رکھ دیا گیا اور مسجد میں جماعت کھڑی ہو گئی، تو ایسی صورت میں آپ کھانا چھوڑ کے نہیں بھاگتے تھے بلکہ کھانا کھاتے رہتے تھے، حالانکہ (مکان مسجد کے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے) امام کی قرأت کی آواز کانوں میں آتی رہتی تھی لیکن آپ کھانے سے فارغ ہو کر ہی نماز پڑھتے تھے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ شریعت و سنت کے بے حد پابند بلکہ عاشق تھے، ان کا یہ طرز عمل خود ان کی روایت کردہ مندرجہ بالا حدیث ہی کی وجہ سے تھا۔
Top