معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 552
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ ، ثُمَّ رَاحَ فَوَجَدَ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا اَعْطَاهُ اللَّهُ مِثْلَ أَجْرِ مَنْ صَلَّاهَا وَحَضَرَهَا ، لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا » (رواه ابوداؤد والنسائى)
جماعت کی نیت پر جماعت کا پورا ثواب
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے وضو کیا اور اچھی طرح (یعنی پورے آداب کے ساتھ) وضو کیا، پھر وہ (جماعت کے ارادے سے مسجد کی طرف) گیا، وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ لوگ جماعت سے نماز پڑھ چکے اور جماعت ہو چکی، تو اللہ تعالیٰ اس بندے کو بھی ان لوگوں کے برابر ثواب دے گا جو جماعت میں شریک ہوئے اور جنہوں نے جماعت سے نماز ادا کی، اور یہ چیز ان لوگوں کے اجر و ثواب میں کمی کا باعث نہیں ہو گی۔ (سنن ابی داؤد، سنن نسائی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ ایک شخص جو جماعت کی پابندی کرتا ہے اور اس کے لیے پورا اہتمام کرتا ہے اس کو اگر کبھی ایسا واقعہ پیش آ جائے کہ وہ اپنی عادت کے مطابق اچھی طرح وضو کر کے جماعت کی نیت سے مسجد جائے اور وہاں جا کر اسے معلوم ہو کہ جماعت ہو چکی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیت اور اس کے اہتمام کی وجی سے اس کو جماعت والی نماز کا پورا ثواب عطا فرمائیں گے، کیوں کہ ظاہر ہے کہ اس کی کسی نادانستہ کوتاہی یا غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے اس کی جماعت فوت نہیں ہوئی ہے، بلکہ وقت کے اندازہ کی غلطی یا کسی ایسی ہی وجہ سے وہ بےچارہ جماعت سے رہ گیا ہے، جس میں اس کا قصور نہیں ہے۔
Top