معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 548
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِيَ فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنَ اتِّبَاعِهِ ، عُذْرٌ » ، قَالُوا : وَمَا الْعُذْرُ؟ ، قَالَ : « خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ ، لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّى » (رواه ابوداؤد والدار قطنى)
جماعت کی اہمیت
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جو شخص نماز باجماعت کے لیے موذن کی پکار سنے اور اس کی بابعداری کرنے سے (یعنی جماعت میں شریک ہونے سے) کوئی واقعی عذر اس کے لیے مانع نہ ہو (اور اس کے باوجود وہ جماعت میں نہ آئے بلکہ الگ ہی اپنی نماز پڑھ لے) تو اس کی وہ نماز اللہ کے ہاں قبول نہیں ہو گی۔ بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ: حضرت (ﷺ) واقعی عذر کیا ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جان و مال کا خوف یا مرض۔ (سنن ابی داؤد، سنن دار قطنی)

تشریح
اس حدیث میں بھی تارکین جماعت کے لیے سخت وعید اور تہدید ہے۔ بعض ائمہ سلف کا مذہب اسی حدیث کی بناء پر یہ ہے کہ جماعت وضو وغیرہ کی طرح نماز کے شرائط سے ہے، اور غیر معذور آدمی کی نماز جماعت کے بغیر سرے سے ہوتی ہی نہیں ہے۔ لیکن جمہور ائمہ کا مذہب یہ نہیں ہے، ان کے نزدیک ایسی نماز ہو تو جاتی ہے لیکن بہت ناقص ادا ہوتی ہے، اور اس کا ثواب بھی کم ہوتا ہے، اور رضاء الہٰی جو خاص الخاص مقصد اور ثمرہ ہے اس سے محروم رہتی ہے، جمہور کے نزدیک مقبول نہ ہونے کا مطلب یہی ہے۔ اور دوسری ان حدیثوں سے جن میں نماز باجماعت اور نماز بے جماعت کے ثواب کی کمی بیشی بتائی گئی ہے۔ جمہور ہی کے مسلک کی تائید ہوتی ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ بغیر عذر کے ترک جماعت بہت بڑی محرومی اور بدبختی ہے۔
Top