معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 547
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لَيْسَ صَلاَةٌ أَثْقَلَ عَلَى المُنَافِقِينَ مِنَ الفَجْرِ وَالعِشَاءِ ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا ، لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ المُؤَذِّنَ ، فَيُقِيمَ ، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا يَؤُمُّ النَّاسَ ، ثُمَّ آخُذَ شُعَلًا مِنْ نَارٍ ، فَأُحَرِّقَ عَلَى مَنْ لاَ يَخْرُجُ إِلَى الصَّلاَةِ بَعْدُ » (رواه البخارى ومسلم)
جماعت کی اہمیت
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: منافقوں پر کوئی نماز بھی فجر و عشاء سے زیادہ بھاری نہیں ہے، اور اگر وہ جانتے کہ ان دونوں میں کیا اجر و ثواب ہے اور کیا برکتیں ہیں تو وہ ان نمازوں میں بھی حاضر ہوا کرتے اگرچہ ان کو گھٹنوں کے بل گھسٹ کر آنا پڑتا (یعنی اگر بالفرض کسی بیماری کی وجہ سے وہ چل کر نہ آ سکتے تو گھٹنوں کے بل گھسٹ کے آتے، اس کے بعد ٓپ ﷺ نے ارشاد فرمایا) کہ میرے جی میں آتا ہے کہ (کسی دن) میں مؤذن کو حکم دوں کہ وہ جماعت کے لیے اقامت کہے، پھر میں کسی شخص کو حکم دوں کہ (میری جگہ) وہ لوگوں کی امامت کرے اور خود آگ کے فتیلے ہاتھ میں لوں اور ان لوگوں پر (یعنی ان کے موجود ہوتے ہوئے ان کے گھروں میں) آگ لگا دوں جو اس کے بعد بھی (یعنی اذان سننے کے بعد بھی) نماز میں شرکت کرنے کے لیے گھروں سے نہیں نکلتے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
للہ اکبر! کتنی سخت وعید ہے، اور کیسے جلال اور غصہ کا اظہار ہے، رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ان لوگوں کے حق میں جو آپ ﷺ کے زمانے میں جماعت میں غیر حاضر ہوتے تھے۔اور اسی بارے میں رسول اللہ ﷺ کا اسی طرح کا ایک لرزہ خیز ارشاد حضرت اسامہ ؓ کی روایت سے سنن ابن ماجہ میں مروی ہے، بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ صاف و صریح ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں۔ لَيَنْتَهِيَنَّ رِجَالٌ عَنْ تَرْكِ الْجَمَاعَةِ، أَوْ لَأُحَرِّقَنَّ بُيُوتَهُمْ (كنز العمال بحواله ابن ماجه) لوگوں کو چاہیے کہ وہ جماعت ترک کرنے سے باز آئیں، نہیں تو میں ان کے گھروں میں آگ لگوا دوں گا۔ یہ تارکین جماعت جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے اتنے سخت غصہ کا اظہار فرمایا، خواہ عقیدے کے منافق ہوں یا عمل کے منافق (یعنی دینی اعمال میں سستی اور کوتاہی کرنے والے) بہرحال اس وعید اور دھمکی کا تعلق ان کے عمل " ترک جماعت " سے ہے۔ اسی بناء پر بعض ائمہ سلف (جن میں سے ایک امام احمد ابن حنبلؒ بھی ہیں) اس طرف گئے ہیں کہ ہر غیر معذور شخص کے لیے جماعت سے نماز پڑھنا فرض ہے۔ یعنی ان کے نزدیک جس طرح نماز پڑھنا فرض ہے اسی طرح اس کو جماعت سے پڑھنا ایک مستقل فرض ہے اور جماعت کا تارک ایک فرض عین کا تارک ہے۔ لیکن محققین احناف نے " جماعت " سے متعلق تمام احادیث کو سامنے رکھ کر یہ رائے قائم کی ہے کہ اس کا درجہ واجب کا ہے اور اس کا تارک گنہگار ہے۔ اور مندرجہ بالا حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ایک طرح کی تہدید اور دھمکی ہے۔ واللہ اعلم۔
Top