معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 546
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : « لَقَدْ رَأَيْتُنَا وَمَا يَتَخَلَّفُ عَنِ الصَّلَاةِ إِلَّا مُنَافِقٌ قَدْ عُلِمَ نِفَاقُهُ ، أَوْ مَرِيضٌ ، إِنْ كَانَ الْمَرِيضُ لَيَمْشِي بَيْنَ رَجُلَيْنِ حَتَّى يَأْتِيَ الصَّلَاةِ » ، وَقَالَ : « إِنْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَنَا سُنَنَ الْهُدَى ، وَإِنَّ مِنْ سُنَنَ الْهُدَى الصَّلَاةَ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي يُؤَذَّنُ فِيهِ » .....وَفِىْ رِوَايَةٍ ..... إِنَّ اللهَ شَرَعَ لِنَبِيِّكُمْ سُنَنَ الْهُدَى ، وَإِنَّهُنَّ (اَىِ الصَّلَوَاتِ حَيْثُ يُنَادَى بِهِنَّ) مَنْ سُنَنَ الْهُدَى ، وَلَوْ أَنَّكُمْ صَلَّيْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ كَمَا يُصَلِّي هَذَا الْمُتَخَلِّفُ فِي بَيْتِهِ ، لَتَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ ، وَلَوْ تَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ لَضَلَلْتُمْ. (رواه مسلم)
جماعت کی اہمیت
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم نے اپنے کو (یعنی مسلمانوں کو) اس حال میں دیکھا ہے کہ نماز باجماعت میں شریک نہ ہونے والا یا تو بس کوئی منافق ہوتا تھا جس کی منافقت ڈھکی چھپی نہیں ہوتی تھی، بلکہ عام طور سے لوگوں کو اس کی منافقت کا علم ہوتا تھا۔ یا کوئی بےچارہ مریض ہوتا تھا (جو بیماری کی مجبوری سے مسجد تک نہیں آ سکتا تھا) اور بعضے مریض بھی دو آدمیوں کے سہارے چل کر آتے اور جماعت میں شریک ہوتے تھے۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو " سنن ہدی " کی تعلیم دی ہے (یعنی دین و شریعت کی ایسی باتیں بتلائی ہیں جن سے ہماری ہدایت و سعادت وابستہ ہے) اور انہیں " سنن ہدی " میں سے ایسی مسجد میں جہاں اذان دی جاتی ہو جماعت سے نماز ادا کرنا بھی ہے۔ اور ایک دوسری روایت میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا یہ ارشاد اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ: " اے مسلمانو! اللہ نے تمہارے نبی ﷺ کے لیے " سنن ہدی " مقرر فرمائی ہیں (یعنی ایسے اعمال کا حکم دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقام قرب و رضا تک پہنچانے والے ہیں) اور پانچوں نمازیں جماعت سے مسجد میں ادا کرنا انہی " سنن ہدی " میں سے ہے اور اگر تم اپنے گھروں ہی میں نماز پڑھنے لگو گے جیسا کہ یہ ایک آدمی جماعت سے الگ اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے (یہ اس زمانے کے کسی خاص شخص کی طرف اشارہ تھا) تو تم اپنے پیغمبر ﷺ کا طریقہ چھوڑ دو گے، اور جب تم اپنے پیغمبر کا طریقہ چھوڑ دو گے تو یقین جانو کہ تم راہ ہدایت سے ہٹ جاؤ گے اور گمراہی کے غار میں جا گرو گے۔ " (صحیح مسلم)

تشریح
گزشتہ صفحات میں کتاب الصلوٰۃ کے بالکل شروع ہی میں یہ بات ذکر کی جا چکی ہے کہ نماز صرف ایک عبادتی فریضہ ہی نہیں ہے بلکہ وہ ایمان کی نشانی اور اسلام کا شعار بھی ہے اور اس کا ادا کرنا اسلامیت کا ثبوت اور اس کا ترک کر دینا دین سے بے اعتنائی اور اللہ و رسول ﷺ نے بے تعلقی کی علامت ہے، اس لیے ضروری تھا کہ نماز کی ادائیگی کا کوئی ایسا بندوبست ہو کہ ہر شخص اس فریضہ کو اعلانیہ اور على رؤس الاشهاد یعنی سب کے سامنے ادا کرے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہدایت رسول اللہ ﷺ نے نماز با جماعت کا نظام قائم فرمایا اور ہر مسلمان کے لیے جو بیمار یا کسی دوسری وجہ سے معذور نہ ہو جماعت سے نماز ادا کرنا لازمی قرار دیا۔ ہمارے نزدیک اس نظام جماعت کا خاص راز اور اس کی خاص الخاص حکمت یہی ہے کہ اس کے ذریعہ افراد امت کا روزانہ، بلکہ ہر روز پانچ مرتبہ احتساب ہو جاتا ہے۔ نیز تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ اس جماعتی نظام کے طفیل بہت سے وہ لوگ بھی پانچوں وقت کی نماز پابندی سے ادا کرتے ہیں جو عزیمت کی کمی اور جذبے کی کمزوری کی وجہ سے انفرادی طور پر کبھی بھی ایسی پابندی نہ کر سکتے۔ علاوہ ازیں باجماعت نماز کا یہ نظام بجائے خود افراد امت کی دینی تعلیم و تربیت کا اور ایک دوسرے کے احوال سے باخبری کا ایسا غیر رسمی اور بے تکلف انتظام بھی ہے، جس کا بدل سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ نیز نماز باجماعت کی وجہ سے مسجد میں عبادت و انابت اور توجہ الی اللہ و دعوات صالحہ کی جو فضا قائم ہوتی ہے اور زندہ قلوب پر اس کے جو اثرات پڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے مختلف الحال بندوں کے قلوب ایک ساتھ متوجہ ہونے کی وجہ سے آسمانی رحمتوں کا جو نزول ہوتا ہے اور جماعت میں اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتوں کی شرکت کی وجہ سے (جس کی اطلاع رسول اللہ ﷺ نے بہت سی حدیثوں میں دی ہے) نماز جیسی عبادت میں ملائکۃ اللہ کی جو معیت اور رفاقت نصیب ہوتی ہے یہ سب اسی نظام جماعت کے برکات ہیں۔ پھر اس سب کے علاوہ اس نظام جماعت کے ذریعہ امت میں جا اجتماعیت پیدا کی جا سکتی ہے اور محلہ کی مسجد کے روزانہ پنج وقتی اجتماع اور پوری بستی کی جامع مسجد کے ہفتہ وار وسیع اجتماع اور سال میں دو دفعہ عید گاہ کے اس سے بھی وسیع تر اجتماع سے جو عظیم اجتماعی اور ملی فائدے اٹھائے جا سکتے ہیں ان کا سمجھنا تو آج کے ہر آدمی کے لیے بہت آسان ہے۔ بہر حال نظام جماعت کے انہی برکات اور اس کے اسی قسم کے مصالح اور منافع کی وجہ سے امت کے ہر شخص کو اس کا پابند کیا گیا ہے کہ جب تک کوئی واقعی مجبوری اور معذوری نہ ہو تو وہ نماز جماعت ہی ادا کرے اور جب تک امت میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایت و تعلیمات پر اسی طرح عمل ہوتا تھا جیسا کہ ان کا حق ہے اس وقت سوائے منافقوں یا معذوروں کے ہر شخص جماعت ہی سے نماز ادا کرتا تھا ار اس میں کوتاہی کو نفاق کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس تمہید کے بعد جماعت کے متعلق ذیل کی حدیثیں پڑھئے۔ تشریح .....رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اپنے اس ارشاد میں فرمایا ہے کہ پانچوں وقت کی نماز جماعت سے مسجد میں ادا کرنا رسول اللہ ﷺ کی تعلیم فرمودہ " سنن ہدی " میں سے ہے، یعنی آپ ﷺ کی ان اہم دینی تعلیمات میں سے ہے، جن سے امت کی ہدایت وابستہ ہے۔ آگے آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جماعت کی پابندی ترک کر کے اپنے گھروں ہی میں نمازا پڑھنے لگنا، رسول اللہ ﷺ کے طریقے کو چھوڑ کر گمراہی اختیار کر لینا ہے۔ اسی کے ساتھ ٓپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: کہ اس امت کے اس اولین دور میں جو مثالی اور معیاری دور تھا، منافقوں اور مجبور مریضوں کے علاوہ ہر مسلمان جماعت ہی سے نماز ادا کرتا تھا، اور اللہ کے بعض صاحب عزیمت بندے تو بیماری کی حالت میں بھی دوسروں کے سہارے آ کر جماعت میں شرکت کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے اس پورے بیان سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ جماعت کی حیثیت ان کے اور عام صحابہؓ کے نزدیک دینی واجبات کی سی ہے۔ پس جن حضرات نے اس روایت کے لفظ " سنن الہدی " سے یہ سمجھا ہے کہ جماعت کا درجہ فقہی اصطلاح کے مطابق بس " سنت " کا ہے، غالباً انہوں نے غور کرتے وقت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے اس پورے ارشاد کو سامنے نہیں رکھا۔ آگے درج ہونے والی حدیثوں سے اس مسئلہ پر اور زیادہ روشنی پڑے گی۔
Top