معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 544
عَنْ أُمِّ حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّةِ ، أَنَّهَا جَاءَتِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللهِ ، إِنِّي أُحِبُّ الصَّلَاةَ مَعَكَ ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكِ تُحِبِّينَ الصَّلَاةَ مَعِي ، وَصَلَاتُكِ فِي بَيْتِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي حُجْرَتِكِ ، وَصَلَاتُكِ فِي حُجْرَتِكِ خَيْرٌ مِنْ صَلَاتِكِ فِي دَارِكِ ، وَصَلَاتُكِ فِي دَارِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي مَسْجِدِ قَوْمِكِ ، وَصَلَاتُكِ فِي مَسْجِدِ قَوْمِكِ خَيْرٌ لَكِ مِنْ صَلَاتِكِ فِي مَسْجِدِي " (رواه احمد ، كنزالعمال)
مسجد میں نماز کے لیے عورتوں کا آنا
مشہور صحابی ابو حمید ساعدی کی بیوی ام حمید ساعدیہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میں چاہتی ہوں کہ آپ کے ساتھ (جماعت سے مسجد میں) نماز ادا کیا کروں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں جانتا ہوں کہ تمہیں میرے ساتھ (یعنی میرے پیچھے جماعت کے ساتھ) نماز پڑھنے کی بڑی چاہت ہے اور مسئلہ شریعت کا یہ ہے کہ تمہاری وہ نماز جو تم اپنے گھر کے اندرونی حصے میں پڑھو وہ اس نماز سے افضل اور بہتر ہے جو تم بیرونی دالان میں پڑھو، اور بیرونی دالان میں تمہار نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم اپنے گھر کے صحن میں پڑھو، اور اپنے گھر کے صحن میں تمہار نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم اپنے قبیلہ کی مسجد میں (جو تمہارے مکان سے قریب ہے) نماز پڑھو، اور اپنے قبیلہ والی مسجد میں تمہار نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم میری مسجد میں آ کر نماز پڑھو۔ (کنز العمال بحوالہ مسند احمد)

تشریح
اس حدیث کے علاوہ اور بھی بہت سے حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی نماز کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح کی وضاحت بار بار ار مختلف موقعوں پر فرمائی ہے لیکن اس کے باوجود بہت سی صحابیات کا دلی جذبہ یہی ہوتا تھا کہ چاہے ہمارے لیے اپنے گھروں میں نماز پڑھنا افضل اور زیادہ ثواب کی بات ہو۔ لیکن ہم کم از کم رات کی نمازیں مسجد میں حاضر ہو کر حضور ﷺ کے پیچھے ہی پڑھ لیا کریں۔ اور چونکہ اس جذبہ کی بنیاد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ آپ کی سچی ایمانی محبت تھی اور اس زمانے میں کسی فتنہ کا اندیشہ بھی نہیں تھا اس لیے آنحضرت ﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ عورتیں اگر رات کو مسجدوں میں جانے کی اجازت چاہیں تو ان کو اجازت دے دیا کرو۔ بہرحال یہ اجازت دینے کا حکم اس وقت کا ہے جب کہ عورتوں کے مسجد جانے میں کسی برائی کا خطرہ اور کسی فتنہ کا اندیشہ نہیں تھا اور بعض صحابہ کرام صرف عرفی غیرت یا اپنی خاص افتاد طبع کی وجہ سے اپنی بیویوں کو مسجد میں جانے سے منع کر دیتے تھے۔ لیکن جب عورتوں اور مردوں دونوں کے حالات میں تبدیلی آ گئی اور فتنوں کے اندیشے پیدا ہو گئے تو خود حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے (جن سے زیادہ کوئی بھی عورتوں کے ظاہری و باطنی حال اور رسول اللہ ﷺ کے مزاج و منشاء سے واقف نہیں ہو سکتا) وہ فرمایا جو آگے درج ہونے والی حدیث میں آپ پڑھیں گے۔
Top