معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 512
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي العَاصِ ، قَالَ : إِنَّ مِنْ آخِرِ مَا عَهِدَ إِلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَنْ اتَّخِذْ مُؤَذِّنًا لاَ يَأْخُذُ عَلَى أَذَانِهِ أَجْرًا. (رواه الترمذى)
اذان و اقامت سے متعلق بعض احکام
عثمان بن ابی العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (جب طائف کا عامل بنا کر مجھے روانہ فرمایا تو اس وقت آپ ﷺ نے) آخر میں جو تاکیدی ہدایتیں مجھے فرمائیں ان میں سے ایک یہ ہدایت بھی تھی کہ کوئی ایسا موذن مقرر کر لینا جو اذان پڑھنے کی مزدوری نہ لے (بس اللہ کے لیے اور آخرت کے ثواب کی نیت سے اذان پڑھا کرے)۔ (جامع ترمذی)

تشریح
اس حدیث کی روشنی میں اکثر ائمہ دین کا جن میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں مسلک یہ ہے کہ اذان پڑھنے کی تنخٰواہ اور اجرت لینا درست نہیں ہے۔ دوسرے حضرات نے رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت کو تقویٰ اور عزیمت پر محمول کیا ہے۔ حنفیہ میں سے بھی متاخرین اہل فتویٰ نے زمانہ کے بدلے ہوئے حالات کے تحت اس میں گنجائش سمجھی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اذان اور امامت جیسے دینی اعمال کی عظمت اور تقدس کا تقاضا یہی ہے کہ وہ خالصا لوجہ اللہ ہوں اور تنخواہ کا معاملہ اگر ناگزیری ہوتو دوسری متعلقہ خدمتوں اور پابندیوں کے عوض میں ہو اور معاملہ کے وقت یہ بات صاف کر لی جائے۔
Top