معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 505
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ "لَمَّا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاقُوسِ يُعْمَلُ لِيُضْرَبَ بِهِ لِلنَّاسِ لِجَمْعِ الصَّلَاةِ ، ‏‏‏‏‏‏طَافَ بِي وَأَنَا نَائِمٌ رَجُلٌ يَحْمِلُ نَاقُوسًا فِي يَدِهِ ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ : ‏‏‏‏ يَا عَبْدَ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَتَبِيعُ النَّاقُوسَ؟ قَالَ : ‏‏‏‏ وَمَا تَصْنَعُ بِهِ؟ فَقُلْتُ : ‏‏‏‏ نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ؟ فَقُلْتُ لَهُ : ‏‏‏‏ بَلَى ، فَقَالَ : ‏‏‏‏ تَقُولُ : ‏‏‏‏ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ، ‏‏‏‏‏‏أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، ‏‏‏‏‏‏أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، ‏‏‏‏‏‏أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ، ‏‏‏‏‏‏حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ، ‏‏‏‏‏‏حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ، ‏‏‏‏‏‏حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُ أَكْبَرُ ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُ أَكْبَرُ ، ‏‏‏‏‏‏لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ ثُمَّ اسْتَأْخَرَ عَنِّي غَيْرَ بَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ : ‏‏‏‏ تَقُولُ إِذَا أَقَمْتَ الصَّلَاةَ : ‏‏‏‏ اللَّهُ أَكْبَرُ ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُ أَكْبَرُ ، ‏‏‏‏‏‏أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، ‏‏‏‏‏‏أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ ، ‏‏‏‏‏‏حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُ أَكْبَرُ ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُ أَكْبَرُ ، ‏‏‏‏‏‏لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَصْبَحْتُ ، ‏‏‏‏‏‏أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا رَأَيْتُ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ : ‏‏‏‏ إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقٌّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ ، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَأَلْقِ عَلَيْهِ مَا رَأَيْتَ فَلْيُؤَذِّنْ بِهِ فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْكَ ، ‏‏‏‏‏‏فَقُمْتُ مَعَ بِلَالٍ فَجَعَلْتُ أُلْقِيهِ عَلَيْهِ وَيُؤَذِّنُ بِهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ فَسَمِعَ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللهُ عَنْهُ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ فَخَرَجَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ : ‏‏‏‏ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ مَا اُرِىَ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ‏‏‏‏ فَلِلَّهِ الْحَمْدُ". (رواه ابو داؤد والدارمى)
اذان: اسلام میں اذان کا آغاز
حضرت عبداللہ بن زید بن عبد ربہ کے صاحب زادے محمد بیان کرتے ہیں کہ میرے والد ماجد عبداللہ بن زید نے مجھ سے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے ناقوس کے لیے فرمایا تا کہ اس کے ذریعے نماز باجماعت کا اعلان لوگوں کے لیے کیا جائے تو خواب میں میرے سامنے ایک شخص آیا جو اپنے ہاتھ میں ناقوس لیے ہوئے تھا، میں نے اس سے کہا: اے اللہ کے بندے! یہ ناقوس تم بیچتے ہو؟ اس نے کہا: تم اس کا کیا کرو گے؟ میں نے کہا: ہم اس کے ذریعے لوگوں اعلان کر کے لوگوں کو نماز کے لیے بلایا کریں گے، اس نے کہا: کیا میں تم کو ایک ایسی چیز بتا دوں جو اس کام کے لیے اس سے بہتر ہے میں نے کہا: ہاں ضرور بتائیے، اس نے کہا: کہو الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الصلاة حى على الفلاح حى على الفلاح الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله عبداللہ بن زید ؓ فرماتے ہیں: کہ یہ پوری اذان بتا کے وہ شخص مجھ سے تھوڑی دور پیچھے ہٹ گیا، اور تھوڑے توقف کے بعد اس نے کہا: پھر جب نماز قائم کرو تو اقامت اس طرح کہو الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الفلاح قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله (عبداللہ بن زید فرماتے ہیں) کہ جیسے ہی صبح ہوئی میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو کچھ میں نے خواب میں دیکھا تھا اسے وہ آپ ﷺ کو بتایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ رویاء حق ہے ان شاءاللہ " (اور آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ) تم بلالؓ کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کلمات کی تلقین کرو جو خواب میں تم نے دیکھے ہیں اور وہ پکار کے ان کلمات کے ذریعہ اذان کہیں کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند زیادہ بلند ہے، تو میں بلال کے ساتھ کھڑا ہوا، میں ان کلمات کی تلقین کرتا تھا اور وہ اذان دیتے تھے۔ عبداللہ بن زید فرماتے ہیں کہ عمر بن الخطاب ؓ نے اس کو اپنے گھر میں سنا تو وہ جلدی میں اپنی چادر کھینچتے ہوئے نکلے وہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کر رہے تھے قسم اس ذات کی! جس نے آپ کو دینِ حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، میں نے بھی ویسا ہی خواب دیکھا ہے جیسا عبداللہ بن زید نے دیکھا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فلله الحمد۔

تشریح
اس حدیث سے متعلق دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ ایک یہ کہ اس میں عبداللہ بن زیدؓ کا بیان یہ نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز کے اعلان کے واسطے ناقوس بنوانے کے لیے فرمایا تھا، اور حضرت انسؓ کے صاحبزادے ابو عمیرؓ کی جو روایت اوپر نقل کی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے سامنے جب ناقوس کی تجویز پیش کی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ " وہ نصاریٰ کی چیز ہے " اس عاجز کے نزدیک اس اختلاف روایت کی صحیح توجیہ یہ ہے کہ نماز کے اعلان کے لیے جو چند تجویزیں رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کی گئی تھیں۔ ان میں جھنڈے والی اور آگ روشن کرنے والی اور یہودیوں کے نرسنگھے والی تجویزوں کے متعلق تو آپ ﷺ نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرما کر واضح طور پر ان کو نامنظور کر دیا تھا اور اس لیے ان میں سے ہر تجویز کے بعد کوئی دوسری تجویز پیش کی گئی، لیکن ناقوس والی آخری تجویز کے بارہ میں آپ ﷺ نے صرف یہ فرمایا کہ " هو من امر النصارى " (وہ نصاریٰ کی چیز ہے) اور کوئی ایسا لفظ نہیں فرمایا جس سے واضح طور پر اس کی نامنظوری سمجھی جاتی اور ممکن ہے کہ آپ ﷺ کے اس وقت کے لب و لہجہ سے بھی بعض صحابہ کرامؓ نے یہ سمجھا ہو کہ دوسری تجاویز کے مقابلہ میں آپ ﷺ کے نزدیک اس تجویز کو کچھ ترجیح ہے اور اس بناء پر انہوں نے یہ خیال کر لیا ہو کہ اس وقت حضور ﷺ نے با دلِ ناخواستہ اس تجویز کو قبول فرما لیا ہے اور جب تک کہ کوئی اور بہتر تجویز سامنے نہ آئے فی الحال ناقوس والی تجویز ہی پر عمل ہو گا (اور غالباً اسی لیے اس کے بعد کسی کی طرف سے کوئی اور تجویز نہیں پیش کی گئی) بہرحال اس عاجز کا خیال ہے کہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ نے غالباً اسی صورت کو " امر بالناقوس " سے تعبیر فرما دیا ہے، کبھی کبھی کسی چیز کی اجازت اور اختیار دینے کو بھی امر سے تعبیر کر دیا جاتا ہے، قرآن و حدیث میں اس کی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ دوسری وضاحت طلب بات اس حدیث میں یہ ہے کہ اذان میں جو کلمات دو دو دفعہ کہے گئے تھے اقامت میں ان کو صرف ایک ایک دفعہ کہا گیا ہے۔ آگے حضرت انس بن مالک ؓ کی جو روایت آ رہی ہے اس سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ اقامت میں ان کلمات کے ایک ہی ایک دفعہ کہنے کا حکم تھا، لیکن بعض دوسری حدیثوں میں (جن میں سے بعض آگے درج بھی کی جا رہی ہیں اور ان کی بھی صحت مسلم ہے) اذان کی طرح اقامت میں بھی ان کلمات کا دو دو دفعہ کہنا وارد ہوا ہے۔ بعض ائمہ نے اپنے اصول اور اپنے معلومات کی بناء پر ایک ایک دفعہ والی کو ترجیح دی ہے اور بعض نے دوسری قسم کی روایات کو، لیکن اس میں شبہ نہیں کہ اقامت کی یہ دونوں صوررتیں ثابت ہیں اور اختلاف صرف ترجیح اور افضلیت میں کیا جا سکتا ہے۔
Top