معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 504
عَنْ أَبِي عُمَيْرِ بْنِ أَنَسٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمُومَةٍ لَهُ مِنْ الْأَنْصَارِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ "اهْتَمَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلصَّلَاةِ كَيْفَ يَجْمَعُ النَّاسَ لَهَا ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ : ‏‏‏‏ انْصِبْ رَايَةً عِنْدَ حُضُورِ الصَّلَاةِ فَإِذَا رَأَوْهَا آذَنَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يُعْجِبْهُ ذَلِكَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ وَذُكِرَ لَهُ الْقُنْعُ يَعْنِي شَبُّورُ الْيَهُودِ فَلَمْ يُعْجِبْهُ ذَلِكَ ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ : ‏‏‏‏ هُوَ مِنْ أَمْرِ الْيَهُودِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ فَذُكِرَ لَهُ النَّاقُوسُ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ : ‏‏‏‏ هُوَ مِنْ أَمْرِ النَّصَارَى ، ‏‏‏‏‏‏فَانْصَرَفَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ وَهُوَ مُهْتَمٌّ لِهَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ‏‏‏‏‏‏فَأُرِيَ الْأَذَانَ فِي مَنَامِهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ فَغَدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ : ‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي لَبَيْنَ نَائِمٍ وَيَقْظَانَ إِذْ أَتَانِي آتٍ فَأَرَانِي الْأَذَانَ ، فَقَالَ : ‏‏‏‏ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ‏‏‏‏ يَا بِلَالُ ، ‏‏‏‏‏‏قُمْ فَانْظُرْ مَا يَأْمُرُكَ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ فَافْعَلْهُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ فَأَذَّنَ بِلَالٌ ". (رواه ابو داؤد)
اذان: اسلام میں اذان کا آغاز
حضرت انس ؓ کے (سب سے بڑے) صاحبزادے ابو عمیر اپنے بعض چچوں سے جو انصاری صحابیوں میں سے تھے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو نماز کے لیے فکر ہوئی (اور آپ ﷺ نے مشورہ بھی فرمایا) کہ اس کے لیے لوگوں کو کس طرح جمع کیا جائے؟ اور کیا تدبیر اختیار کی جائے، پس بعض لوگوں نے عرض کیا کہ نماز کے وقت ایک جھنڈا نصب کیا جائے، جب لوگوں کی اس پر نگاہ پڑے گی تو ایک دوسرے کو اطلاع کر دیں گے، رسول اللہ ﷺ کو یہ رائے پسند نہ آئی۔ راوی کا بیان ہے کہ اس سلسلہ میں آپ ﷺ کے سامنے یہودیوں کے بھونپو کا بھی ذکر کیا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا وہ تو یہودیوں کی چیز اور ان کا طریقہ ہے اور اس کو بھی آپ ﷺ نے پسند نہ کیا، پھر ناقوس کا ذکر کیا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا وہ نصاریٰ کا طریقہ ہے اور ان کی چیز ہے (الغرض اس مجلس میں کوئی بات طے نہیں ہو سکی) اس مسئلہ میں رسول اللہ ﷺ کی غیر معمولی فکر مندی کو دیکھ کر آپ ﷺ کے ایک انصاری صحابی عبداللہ بن زید بن عبدربہؓ بھی بہت فکر مند ہوئے اور اسی فکر کی حالت میں حضور ﷺ کی مجلس سے واپس آ کر پڑ گئے، پھر نیم خواب اور نیم بیداری کی حالت میں انہوں نے اذان سے متعلق خواب دیکھا (اس خواب کی پوری تفصیل آگے آنے والی حدیث سے معلوم ہو جائے گی) وہ صبح سویرے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! رات جب کہ میری حالت یہ تھی کہ نیم خفتہ ار نیم بیدار تھا نہ پوری طرح بیدار تھا اور نہ ہی سویا ہوا تھا، میرے پاس کوئی آنے والا آیا اور اس نے مجھے اذان کہہ کر دکھائی (پھر انہوں نے خواب کی پوری تفصیل سنائی) حضور ﷺ نے فرمایا، بلال! اٹھو اور یہ عبداللہ بن زید تم سے جو کہیں اور جو بتائیں وہی کرو "، (یعنی ان کی تلقین کے مطابق اذان دو) راوی کا بیان ہے کہ بلال نے اس حکم کی تعمیل کی اور اذان دی۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
رسول اللہ ﷺ جب مکہ معظمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ رتشریف لائے اور نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد بنائی گئی تو ضرورت محسوس ہوئی کہ جماعت کا وقت قریب ہونے کی عام اطلاع کے لیے اعلان کا کوئی خاص طریقہ اختیار کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس بارہ میں صحابہ کرامؓ سے بھی مشورہ فرمایا، کسی نے کہا کہ اس کے لیے بطورِ علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کیا جایا کرے، کسی نے رائے دی کہ کسی بلند جگہ آگ روشن کر دی جایا کرے، کسی نے مشورہ دیا کہ جس طرح یہودیوں کے عبادت خانوں میں نرسنگھا (ایک قسم کا بھونپو) بجایا جاتا ہے اسی طرح ہم بھی نماز کے اعلان اور بلاوے کے لیے نرسنگھا بجایا کریں، کسی نے نصاریٰ والے ناقوس کی تجویز پیش کی، لیکن رسول اللہ ﷺ کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہیں ہوا اور آپ ﷺ اس مسئلہ میں متفکر رہے، آپ ﷺ کی اس فکر مندی نے بعض صحابہ کرامؓ کو بھی بہت متفکر کر دیا ان میں سے ایک انصاری صحابی حضرت عبداللہ بن زید بن عبد ربہؓ نہ جو حضور ﷺ کو متفکر دیکھ کر بہت ہی فکر مند اور بےچین ہو گئے تھے، اسی رات خواب دیکھا (جس کی تفصیل آگے آنے والی حدیثوں سے معلوم ہو گی) اس خواب میں انہیں اذان اور اقامت کی تلقین ہوئی، انہوں نے صبح سویرے ہی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا خواب عرض کیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا " ان شاء اللہ یہ رؤیا حق ہے " یعنی یہ خواب منجانب اللہ ہے۔ (یہ بات آپ ﷺ نے یا تو اس لیے فرمائی کہ ان صحابی کے بیان کرنے سے پہلے ہی خود آپ ﷺ پر بھی اس بارہ میں وحی آ چکی تھی یا خواب سننے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے قلب مبارک مین یہ بات ڈالی) بہرحال آپ ﷺ نے ان صحابی عبداللہ بن زیدؓ سے فرمایا کہ تم بلال کو اذان کے ان کلمات کی تلقین کر دو، ان کی آواز زیادہ بلند ہے وہ ہر نماز کے لیے اسی طرح اذان دیا کریں۔ بس اس دن سے اذان کا یہ نظام قائم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا خاص الخاص شعار ہے۔ اس تمہید کے بعد اذان و اقامت سے متعلق ذیل کی حدیثیں پڑھئے! ابو داؤد کی اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ عبداللہ بن زیدؓ کے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا خواب بیان کرنے سے پہلے ہی حضرت عمر ؓ نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا تھا، لیکن جب عبداللہ بن زیدؓ سبقت کر کے حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے اور انہوں نے اپنا خواب پہلے بیان کر دیا تو حضرت عمر ؓ کو اپنے خواب کا ذکر کرنے میں کچھ حجاب محسوس ہوا، پھر بعد میں انہوں نے حضور ﷺ سے ذکر کیا۔ بعض دوسری روایات میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اور بعض میں اور بھی چند صحابہ کرامؓ کے اسی قسم کے خواب کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن محدثین کے نزدیک یہ روایتیں ثابت نہیں ہیں۔
Top