معارف الحدیث - کتاب الصلوٰۃ - حدیث نمبر 499
عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ ، قَالَ : ‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ‏‏‏‏ " أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِلْأَجْر". (رواه ابو داؤد والترمذى والدارمى)
وقت فجر کےبارے میں
حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: اسفار میں ادا کرو نمازِ فجر (یعنی صبح کا اجالا پھیل جانے پر فجر کی نماز پڑھو) کیونکہ اس میں زیادہ اجر و ثواب ہے۔ (سنن ابی داؤد، جامع ترمذٰ، مسند دارمی)

تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوا تھا کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی نماز سویرے اور اتنے اندھیرے میں پڑھتے تھے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد بھی ایسا اندھیرا رہتا تھا کہ نماز پڑھ کر گھر واپس جانے والی خواتین پہچانی نہیں جا سکتی تھیں۔ اور حضرت رافع بن خدیج ؓ کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فجر کی نماز صبح کا اجالا پھیل جانے پر پڑھنا افضل اور زیادہ ثواب کی بات ہے۔ ائمہ مجتہدین اور علماء دین نے اس اختلاف کو کئی طریقوں سے حل کیا ہے۔ اس عاجز کے نزدیک بعض اکابر علماء کی یہ توجیہ سب سے زیادہ رائج ہے کہ رافع بن خدیج کی اس حدیث کے مطابق فجر کے لیے افضل تو اسفار ہی ہے، یعنی یہ کہ کچھ تاخیر کر کے اس وقت پڑھی جائے جب صبح کا اجالا پھیل جائے، لیکن چونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زیادہ تر لوگ تہجد پڑھنے والے اور فجر کے لیے اول وقت اٹھنے والے تھے (جیسا کہ آج تک بھی اہل صلاح و تقوی کا عام حال ہے) اس لیے ان کے لیے سہولت اسی میں تھی کہ فجر کی نماز تاخیر سے نہ پڑھی جائے۔ دیر کر کے اسفار میں پڑھنے کی صورت میں ان کو طویل انتظار کی زحمت اٹھانی پڑتی، اس لئے رسول اللہ ﷺ فجر کی نماز زیادہ تر سویرے غلس ہی میں پڑھتے تھے، گویا جس طرح عشاء کی نماز کے لیے تہائی رات تک کی تاخیر افضل ہونے کے باوجود آپ ﷺ کے لیے غلس میں یعنی اندھیرے میں پڑھتے تھے، اور پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ اللہ کے بندوں کی رعایت اور سہولت کی فضیلت وقت سے مقدم اور بالا تر ہے۔ ہمارے زمانے میں چونکہ تہجد گزار اور فجر کے لیے اول وقت میں اٹھنے والے بہت کم ہیں اور زیادہ لوگوں کو سہولت اسفار میں (یعنی اجالا پھیل جانے پر پڑھنے میں) ہے، بلکہ فجر کی جماعت اگر اول وقت غلس میں ہو تو نمازیوں میں سے بھی بہت کم شریک جماعت ہو سکیں گے۔ ان سب وجوہ سے ہمارے زمانے میں کچھ تاخیر کر کے اسفار ہی مین فجر کی نماز پڑھنا بہتر ہو گا، تاہم اگر کسی جگہ کے عام نمازی اول وقت ہی میں جمع ہو جاتے ہوں اور تاخیر میں ان کے لیے زحمت اور مشقت ہو تو ان کے لیے یہی بہتر ہو گا کہ وہ اول وقت یعنی غلس ہی میں نماز پڑھ لیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا اکثر معمول تھا۔ بہت سے دینی حلقوں میں رمضان مبارک میں فجر کی نماز اول وقت غلس میں پڑھنے کا دستور اسی بنیاد پر ہے۔
Top